rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
یہ طمع و لالچ کا زہریلا کیڑا رب جانے کب سے انسانی دل و دماغ پہ اپنا تسلط جما کے انسانوں کو ہی انسانوں کے کشت و خون پہ آمادہ کرنے پہ اتنا اور اس قدر اکساتا ہے کہ آخر کار انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگ کے پریشان ہو کے اپنا سکون بھی گنوا بیٹھتا ہے اور دنیا کے سامنے مجرم بن کے کٹہرے میں بھی کھڑا ہو جاتا ہے، جزا سزا، عدالت کچہری، کٹہرے، وکیل اور جج صاحبان کے ساتھ ساتھ قوانین کی سختی بھی نجانے کیوں انسان کو برے کاموں سے رونے میں ناکام کیوں ہے؟
مجھے بچپن میں پڑھی جانے والی کہانی لالچ کی سزا جس میں تین دوست گھر سے نکلتے ہیں، انھیں راستے میں تین سونے کی اینٹیں ملتی ہیں، تھک ہار کے جب تین دوستوں کو بھوک لگتی ہے تو وہ ایک دوست کو پیسے دے کر کھانا لینے بھیج دیتے ہیں، اب لالچ دونوں اطراف اپنے پھن پھیلا لیتا ہے، کھانا لانے والا اس دھن میں ہوتا ہے کہ دونوں یاروں کو مار کر تینوں سونے کی اینٹوں کا مالک بن جاے اور کھانے کا انتظار کرنے والے اس دھن میں ہوتے ہیں کہ کھانا لانے والے کا کام تمام کر کے سونا آپس میں بانٹ لیا جاے، لہذا جونہی وہ کھانا لے کر پہنچتا ہے یہ اس کا گلا گھونٹ کر اسے مار دیتے ہیں اور پھر اطمینان سے کھانا کھاتے ہیں، کھانا چونکہ زیریلہ تھا لہذا کھانا کھاتے ہی خود بھی لقمہ اجل بن جاتے ہیں، غور فرمائیے گا کہ تین انسان جان سے ہاتھ دھو لیتے ہیں اور سونے کی تین اینٹیں وہیں ان کا منہ چڑا رہی ہوتی ہیں کہ اے لالچ، دھن بھاگ تیری شیطانیت اور کمینگی کو جو اتنے بے گناہ انسانوں کو کھا گءی اور تیرے لالچ کا پیٹ پھر بھی خالی کا خالی ہی رہ گیا. خدا جانے لالچ، طمع اور ہوس کے پجاری یہ کیوں بھول جاتے ہیں؟ کہ ان کا لالچ انھیں آخرت ہی نہیں دنیا میں بھی ذلیل و رسوا کر چھوڑے گا، مگر بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تک لالچ بری بلا ہے سن سن کے کان بھی پک گیے مگر نہ لوگوں نے لالچ کا دامن چھوڑا نہ ہی
لالچ کی خواہش کے عذاب سے بچنے کے جتن کیے، بھلے کتے کا لالچ تھا یا انسان کا ہمیشہ سوا نیزے پہ ہی رہا، ابھی چند روز قبل ایک لیڈی ڈاکٹر کا اپنی بچپن کی سہیلی پہ اندھا اعتبار بھی اسی لالچ کی بھینٹ چڑھ گیا، بد دیانتی کرنے والے نہ صرف امانت میں خیانت کے مرتکب ہوے بلکہ انھوں نے لیڈی ڈاکٹر کا گلا گھونٹ کے موت سے بھی ہمکنار کر دیا، گویا اس بات پہ مہر لگا دی کہ کوی کسی پہ اعتبار نہ کرے، روپیہ پیسہ، مال و دولت انسانی دل و دماغ کو اتنا خراب کر دیتے ہیں کہ وہ اپنے پیاروں کی جان تک لینے پہ آمادہ ہو جاتے ہیں اور پھر انھیں یہ خبط بھی لاحق ہو جاتا ہے کہ ان کا جرم لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہے گا، شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کا اصل حاکم تو وہی رب پاک ہے جس نے نہ صرف ہمیں زندگی دی بلکہ ہمارے
َزندہ رہنے کا بھر پور اہتمام بھی کیا، تو ہمیں ایک اچھی زندگی گزارنے کے احکامات خدا وندی کو پورے طور سے اپنی روزمرہ زندگیوں میں لاگو کرنا ہو گا، صبر و شکر کو اپنا شعار بنانا ہو گا تاکہ دنیا کو جاے امن و سکون بنایا جا سکے.
بدل ڈالو دریچے،در، ٹھکانے
یہ دنیا اب پرانی ہو گئی ہے
پونم نورین
Leave a Reply