کئی سالوں سے سرکردہ سیاستدان ایک دوسرے پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات لگا رہے تھے لیکن حکمرانی میں شراکت کے بعد وہی سیاستدان ایک دوسرے کو گلے لگا کر مداح سرائیوں میں لگ جاتے ہیں. نتیجتاً متعلقہ سیاستدانوں کے خلاف مقدمات این آر او یا قوانین میں ترامیم کی بنیاد پر خارج کر دیئے جاتے ہیں. اب انہی کے مدِ مقابل سیاستدان مختلف الزامات کے تحت قید و بند کا سامنا کر رہے ہیں. ایسے حالات سے سیاستدانوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ ملک و قوم ہر لحاظ سے تنزلی کا شکار ہیں. بیرونی قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کی خاطر بھی نئے قرضوں کے لئے کاسہ پھیلانا پڑتا ہے. مُلک میں سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے ہم حکمرانوں سے اُمید کرتے ہیں کہ اپنے وزراء کو اختلافی سیاسی بیانات سے باز رکھیں تاکہ سیاسی بے چینی کا خاتمہ کیا جا سکے. حکمران اپنے وزراء کو یہ ہدایات بھی جاری کریں کہ صرف اپنی متعلقہ وزارتوں کے تحت مسائل کے حل کے لئے اپنی قومی ذمہ داری کے پیش نظر جواب دیں. اس طرح وزراء کی پوری توجہ بہتر کارگردگی پر مرکوز رہے گی. سیاسی سوالات اور بیانات پر رد عمل کو اپنے سیاسی آقاؤں پر چھوڑ دیں. اگر سیاسی رسہ کشی جاری رہی اور وزراء بھی اس کھیل کا حصہ بنے رہے تو عوام کی رہی سہی اُمیدیں بھی خاک میں مل جائیں گی کیونکہ عوام اب صرف معاشی اور معاشرتی بدحالی کا خاتمہ چاہتے ہیں جبکہ اکثر سیاستدان سیاسی اکھاڑے میں گہما گہمی کے لئے متضاد بیانات دینے سے بھی گریز نہیں کرتے کیونکہ وہ توہر لحاظ سے خوشحال زندگی گزار رہے ہیں.
اپنی خرابیوں کو پسِ پُشت ڈال کر
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے
شہزادہ ریاض
Leave a Reply