rki.news
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدا پر یقین رکھنے والوں کا باطنی و بیرونی رویہ اس خالقِ کائنات کے ساتھ ایک گہری، غیر مرئی نسبت پر استوار ہوتا ہے جسے وہ نادیدہ مگر زندہ، خاموش مگر متکلم، غیرمحدود مگر قریب تر از رگِ جاں سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہر لمحہ، ہر ذرّہ اور ہر حادثہ، اس خدا کے علم، ارادے اور تقدیر کا عکس ہے۔ وہ دعا کرتے ہیں، سجدہ کرتے ہیں، اور اس ذاتِ واجب الوجود سے اپنے تمام معاملات میں رہنمائی مانگتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی وہ دنیا کے اسباب، مہارتوں، سائنسی انکشافات، اور انسانی محنت پر بھی اعتماد رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک خدا کا حکم ہے کہ
“علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے”،
اس لئے وہ علمِ طبیعیات، کیمیا، حیاتیات، نفسیات، فلکیات، حتیٰ کہ فلسفۂ وجودیات تک، ہر شعبہ علم میں قدم رکھتے ہیں۔
یہی علومی دائرہ وہ مقام ہے جہاں غیر مذہبی مفکرین بھی سرگرم نظر آتے ہیں۔ یہ اہلِ فکر عموماً اس خدا کے تصور سے دستبردار ہوتے ہیں جو مذہبی کتب میں تصویر کشی کے ساتھ موجود ہے، مگر وہ کائناتی طاقت، توانائی، اور نامعلوم محرکات کو کسی حد تک قبول کرتے ہیں۔ بعض عقلیت پسند حضرات محض سائنسی توضیح پر اکتفا کرتے ہیں کہ فطرت خود ارتقا کی خالق ہے اور مادہ یا توانائی ازل سے موجود ہے، لہٰذا کسی ماورائی وجود کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ لیکن غور کیا جائے تو وہی “ارتقائی قوت”، وہی “خودکار فطرت”، جس کا وہ بار بار حوالہ دیتے ہیں، اُن کے شعور میں ایک مقدس مظہر کا روپ دھار لیتی ہے؛ وہ اسے قانونِ فطرت، شعورِ ارتقا یا حیاتی توانائی کا نام دیں، مگر وہی ان کے لئے “نیم خدائی” صفات رکھتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں طبقات، مذہبی اور غیر مذہبی، علم سے وابستہ ہیں۔ دونوں حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ ایک وحی کے ذریعے، دوسرا تجربہ و مشاہدہ کے ذریعے۔ ایک کا سہارا وجدان، قلب اور روح ہے، تو دوسرا خرد، دلیل اور عقل کا اسیر ہے۔ مگر دونوں انسانی سوالات سے نبرد آزما ہیں:
کائنات کیوں ہے؟ میں کون ہوں؟ آغاز کیا تھا؟ انجام کیا ہوگا؟
مذہبی فرد کہتا ہے:
“میں عبد ہوں، اور وہ رب ہے”۔
غیر مذہبی مفکر کہتا ہے:
“میں مشاہدہ ہوں، اور وہ حقیقت جو دریافت ہو، بس وہی معتبر ہے”۔
دونوں میں ایک حد تک اشتراک بھی ہے، دونوں سچائی کے متلاشی ہیں۔ دونوں اپنے اپنے میدانوں کے داعی ہیں۔ البتہ راستہ مختلف ہے۔ مذہبی شخص آسمان کی طرف نگاہ کرتا ہے، تشکیک پسند مفکر خرد کی آنکھ سے جھانکتا ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر دونوں کی نظریں آخرکار اسی کائنات پر مرکوز رہتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک اس نظم و ترتیب کو ایک مہربان خالق کا کرشمہ کہتا ہے، جبکہ دوسرا اسے اتفاق، بگ بینگ، یا طبعی اصولوں کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔
مذاہبِ عالم میں روحانیت، جسے غیر مذہبی اہلِ فکر اکثر ایک وہم یا انسانی جذبات کا فریب قرار دیتے ہیں، مذہبی شعور کے لئے حیات کا سب سے گہرا پہلو ہے۔ مذہبی فرد کے نزدیک روحانیت وہ لطیف مکالمہ ہے جو انسان اور اس کے رب کے درمیان جاری رہتا ہے۔ یہ وہی وجدانی دنیا ہے جہاں محبت، یقین، دعا، معجزہ، وحی، کشف، اور توکل جیسے تصورات بیدار رہتے ہیں۔ دوسری طرف تشکیک پسند دانشور اس عالمِ درون کو محض نیورونز کی کیمیاوی حرکت سمجھتے ہیں، جو وقت، ماحول اور ارتقائی بقا کے تحت تشکیل پاتی ہے۔ ان کے نزدیک وجدان دراصل حیاتیاتی بقاء کا ایک نفسیاتی حربہ ہے۔
پھر بھی، یہ کہنا بجا ہوگا کہ سیکولر مفکرین بھی اپنے انداز میں ایک قسم کی “ایمان داری” کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ عقل پر ایمان رکھتے ہیں، سائنسی ثبوتوں کی پیروی کرتے ہیں، اور جب کوئی حقیقت سامنے آ جائے، تو اپنے نظریات پر نظرثانی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مذہبی انسان بھی، اگر واقعی حقیقت پسند ہو، تو سچائی کے سامنے جھکنے کو اپنا فرض سمجھتا ہے۔ یہی مقام ہے جہاں دونوں کے درمیان ایک مکالمہ ممکن ہوتا ہے، اگر دل کشادہ ہوں اور ذہن آمادہ۔
اصل مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں دونوں اپنی حد سے تجاوز کرتے ہیں، مذہبی شدت پسند جب سائنسی تحقیق کو کفر قرار دیتا ہے، اور عقلیت پسند جب روحانیت کو سراسر فریب اور مذہب کو محض جاہلیت کہہ کر رد کرتا ہے۔ جب تک دونوں اپنے اپنے دائرے میں رہ کر سچائی کی تلاش میں محو رہیں، انسانیت علم و شعور کے نئے دریچے کھولتی چلی جائے گی۔
میرے خیالات پر مشتمل یہ مختصر مضمون کسی فتوے کا داعی نہیں، نہ کسی عقیدے کا وکیل، بلکہ ایک عاجزانہ کوشش ہے کہ مذہبی اور غیر مذہبی افراد کو ایک مشترکہ فکری مقام پر لایا جا سکے جہاں دلیل کی شمع اور اخلاص کی روشنی مل کر ایسی بصیرت پیدا کرے جو تعصب سے پاک ہو، علم سے لبریز ہو، اور انسانیت کے حق میں ہو۔ کیونکہ آخرکار، مذہب بھی انسان کا ہے، سائنس بھی انسان کی، عقل بھی اسی کی ہے، وجدان بھی اسی کا۔ شرط صرف یہ ہے کہ انسان، انسان بنے، اور سچائی کا پیاسا رہے۔
Leave a Reply