تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
امریکہ نے یمن میں حوثیوں پربمباری شروع کر دی ہے۔اس بمباری کی وجہ سے 53 افراد ہلاک اورسو سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےان حملوں کا حکم دیا ہے۔ٹرمپ نے سوشل میڈیا سائیٹ پر پوسٹ شیئر کی ہے جس میں کہا ہے کہ میں نے امریکی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ یمن کے حوثی دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اور طاقتور فوجی آپریشن شروع کر دے۔ٹرمپ نےحوثیوں پر حملہ کرنے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پرحوثیوں نے حملے کیے۔ان حملوں کاجواب دینے کے لیےامریکہ کی طرف سےفضائی حملے کیے جا رہے ہیں اور کئی دنوں تک جاری رہنے کا امکان ہے۔امریکہ کی طرف سے اس وقت تک حملے جاری رہیں گے جب تک مقاصد حاصل نہیں ہو جاتے۔حوثیوں نے یمن کےبڑے حصہ پر کنٹرول رکھاہواہےاور بحیرہ احمر بھی ان کے کنٹرول میں ہے۔حوثیوں نےخبردار کیا ہوا تھا کہ بحیرہ احمر سے اسرائیل آنےاورجانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنایاجائےگا،کیونکہ اسرائیل فلسطینیوں پربمباری کرریاتھا۔حوثیوں کےحملوں کی وجہ سے بحیرہ احمرسےتجارتی بحری جہازوں کا گزرنا مشکل ہو گیا۔ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 20 فیصد تجارتی بحری جہاز بحیرہ احمرپر گزرنے سےگریز کرتےہوئے،افریقہ کے جنوب سے زیادہ طویل راستہ استعمال کرنےپرمجبورہوئے۔نومبر 2023 میں حوثی جنگجوؤں نےفلسطینیوں سے اظہاریکجہتی اور مدد کے لیےاسرائیلی بحری جہازوں کونشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔جب غزہ اسرائیل جنگ بندی معاہدہ ہوا توحوثیوں نے بھی حملے کرنے چھوڑ دیے۔اسرائیلیوں نےفلسطینیوں تک غذا اور دوسری اشیاء کو روکنا شروع کیا تو حوثیوں نےدوبارہ حملے کرنے کا اعلان کیا۔واضح رہے کہ حوثی ایک منظم فوج رکھتے ہیں،جس سے وہ کسی بھی قوت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
حوثی ایک جنگجو گروپ ہےاوریہ گروپ 1990 میں اس وقت کے صدر علی عبداللہ صالح کا مقابلہ کرنے کے لیےبنایا گیا تھا۔اس کے مقاصد میں یہ بھی تھا کہ عبداللہ صالح کی کرپشن اور دوسری زیادتیوں کو مقابلہ کیا جا سکے۔آہستہ آہستہ یہ قوت پکڑتا گیااور اب یہ منظم فوج رکھنے کی وجہ سے یمن کے کافی رقبے پر کنٹرول حاصل کر چکا ہے۔یہ امریکہ اور اسرائیل کا مخالف گروپ ہے۔2003 میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو اس گروپ نےاللہ اکبر،مرگ بر امریکہ اور مرگ بر اسرائیل کے نعرے لگائے۔حوثیوں کی امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ دشمنی جاری ہے۔امریکہ نےایران کو بھی وارننگ دی ہے کہ حوثیوں کی مدد کرنے سے باز رہے،ورنہ اس کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔ایران اور امریکہ کے تعلقات میں جوہری توانائی کے مسئلہ کی وجہ سے بھی بہت تناؤ پایا جا رہا ہے۔امریکہ اور اسرائیل کی کوشش ہے کہ ایران کے پاس ایٹمی طاقت نہیں ہونی چاہیے۔ایران ایسے مذاکرات کرنے سے انکار کر رہا ہےجو دباؤ اور دھمکی کےزیر اثر کیے جائیں۔ایران کو جو امریکی صدر کی طرف سے وارننگ دی گئی ہے کہ وہ حوثیوں کی مدد سےباز رہے تو ایرانی پاسدران انقلاب کےکمانڈر حسین نےدھمکی کے رد عمل میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کی کسی بھی کاروائی کا ایران فیصلہ کن اورتباہ کن جواب دے گا۔حوثی بھی مقابلہ کر رہے ہیں اور پیر کی صبح امریکی بحری جہاز ہیری ایس ٹرومین پر ہونے والے دوسرے حملہ کی ذمہ داری انہوں نے قبول کر لی ہے۔امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ یمن پر امریکی حملے حوثیوں کے جہازوں پر حملوں کی طاقت ختم ہونے تک جاری رہیں گے۔حوثی مقابلہ کر رہے ہیں،لیکن امریکی طاقت کا مقابلہ کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔ہو سکتا ہےیمن میں حوثیوں کی قوت ٹوٹ جائےاور امریکہ کے زیر سایہ ایسی حکومت آجائے جوامریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیےفائدہ مند ہو۔
حوثی امریکہ کے اقدام کو جنگی جرم قرار دے رہے ہیں۔روس نے بھی امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرے۔روسی وزیر خارجہ نےامریکی وزیر خارجہ کو فون کیا ہے کہ حوثیوں کے خلاف طاقت کا استعمال روکنے کی ضرورت ہے اور تنازعات کے حل کے لیےسیاسی بات جیت کی جائے۔حوثیوں کےپڑوسیوں سعودی عرب،عرب امارات اور بحرین کے ساتھ بھی تعلقات بہت حد تک خراب ہیں۔ایک دفعہ سعودی عرب نےبحرین اور عرب امارات کے ساتھ مل کر حوثیوں کے خلاف عسکری محاذ بھی کھولا تھا۔اب دوبارہ سعودی عرب دوسرے ممالک سےمل کرحوثیوں کے خلاف جنگ شروع کر سکتا ہے۔ایران حوثیوں کی کافی عرصے سے مدد کر رہا ہے۔حوثی دوسری ریاستوں کی نسبت ایران کے زیادہ قریب ہیں اور حزب اللہ کا تعاون بھی حوثیوں کو حاصل ہے۔ایران محدود مدد کر سکتا ہے،زیادہ مدد کرنےسے اس لیے قاصر ہے کہ اس کے اپنے وسائل بہت ہی کم ہیں۔وسائل کی کمی ایران کو بہت ہی مسائل کا شکار کر رہی ہے۔ایران کے لیے عالمی پابندیاں بھی مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔اب اگر حملےجاری رہتے ہیں تو ایران کے لیے بھی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
یمن میں حوثیوں کے خلاف اندرون ملک بھی مخالفت اٹھ سکتی ہے۔سیاسی یا دوسرے مخالفین حوثیوں کے خلاف فیصلہ کن معرکہ شروع کر سکتے ہیں۔حوثیوں کی مخالفین کو بیرونی امداد حاصل ہو سکتی ہے۔حوثیوں کے پاس جدید ہتھیاروں سمیت اسلحہ کی بھی کمی ہے،ان وجوہات کی وجہ سے بھی حوثیوں کو شکست مل سکتی ہے۔روس نے بہترین مشورہ دیا ہے کہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعےمسئلے حل کیے جائیں۔غزہ اسرائیل جب جنگ بندی معاہدہ ہوا تو حوثیوں نےاسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنانا چھوڑ دیا تھا۔عالمی برادری کو چاہیے کہ اسرائیل کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ اپنے معاہدے کی پاسداری کرے اور فلسطینیوں کو ملنے والی انسانی امداد کو نہ روکے۔جنگ چھیڑنے سے بہتر ہے کہ میز پر بیٹھ کر مذاکرات کیے جائیں،ہو سکتا ہے کہ کوئی بہتر حل نکل آئے۔جنگ کی صورت میں بہت سے انسان قتل ہوں گےاور دیگرتباہی بھی مچے گی۔
Leave a Reply