تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
جنگوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عالمی اقتصادی بحران دن بدن بڑھ رہا ہے۔کمزور معیشتیں تو پہلے بھی بدتر حالت کا سامنا کر رہی تھی،لیکن اب طاقتور معیشتیں بھی بحران کا سامنا کرنے پر مجبور ہو چکی ہیں.امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےمزید مسائل پیدا کر دیے ہیں اور اس کے اثرات یورپی یونین پر ہھی پڑ رہے ہیں۔امریکی صدر کے محصولات عائدکرنے اور دیگر پالیسیوں کی وجہ سے یورپی یونین کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے۔یورپی یونین 27 ممالک کااتحاد ہےاور 18 ممالک میں کرنسی یورواستعمال کی جاتی ہے۔ڈالر کے مقابلے میں یورو کی ویلیو کم ہے لیکن اس کی مضبوطی بھی تسلیم کی جاتی ہے۔یورپی یونین کےقیام کا مقصدسیاسی اور اقتصادی تھااور اس میں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے،لیکن اب امریکی صدر نے یورپی یونین کی معیشت کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔امریکہ کے بعد چین کی معیشت کا نام لیا جاتا ہےاور بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق چینی معیشت چند سال کے بعداول ہونے کا ٹائٹل حاصل کر لے گی۔امریکہ اور چین کی جانب سے چیلنج کے بعد یورپی یونین نےنیا اقتصادی ماڈل اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ اگر فوری طور پر یورپی یونین نےدرست سمت کی طرف سفر نہ کیا تو یورپی یونین بدترین بحرانوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔صرف یورپی یونین ہی نہیں دوسرے ممالک بھی ڈیفالٹ کے خطرے کا شکار ہو جائیں گےاور کمزور معیشتیں بدترین قحط کا شکار ہو جائیں گی۔کئی ممالک کوشش کر رہے ہیں کہ اقتصادی بحرانوں سےخود کو بچا لیں۔ایسے کئی ممالک جو قرض یا بیرونی امداد پراپنانظام چلا رہے ہیں،وہ مجبور ہو جائیں گےکہ اپنے ممالک کا نظام طاقتور معاشی ممالک کے حوالے کر دیں۔اس قسم کے نظام انسانی غلامی میں اضافہ کرتے ہیں اور غلامی انسانیت کےلیے بہت ہی بدترین عذاب ہے۔سودی معیشت نے دنیا میں عدم توازن پیدا کر رکھا ہےاور کئی ممالک سودی معیشت میں پھنس کراپنی آزاد حیثیت کو بھی کھو بیٹھے ہیں۔امریکی پالیسیاں دنیا کے لیےخطرے کا الارم ہیں،اگر فوری طور پر بہتری کے لیے قدم نہ اٹھایا گیا تومسائل کے پہاڑ پیدا ہو جائیں گے۔
یورپی یونین کے سربراہ ارسلاوان ڈیرلیین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یورپ کے جدت طرازی کےانجن کو دوبارہ متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔یورپ اپنی تشخیص کر چکا ہےاور نئے ماڈل اپنانےکے لیے تیار ہے۔یورپی یونین ایک بہت بڑے اتحاد کا نام ہے،جس میں جرمنی اور فرانس جیسی طاقتیں بھی شامل ہیں،لیکن اب جرمنی اورفرانس بھی مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں۔یورپ کو روس سے سستی گیس حاصل ہو رہی تھی،لیکن یوکرین_روس جنگ کی وجہ سےروس کے ساتھ گیس معاہدہ منقطع ہو چکا ہےاور اس وجہ سے توانائی کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی توانائی کی زائد لاگت آرہی ہےاور کمزور سرمایہ کاری بھی یورپ کی معیشت کو کمزور کر رہی ہے۔یورپ میں نئے منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہےاور اس بات کی توقع کا اظہار کیا گیاہےکہ 2050 تک یورپ اپنے مقاصد حاصل کر لے گا۔امریکی صدر کی طرف سے ٹیرف میں زیادتی کی وجہ سے یورپ کو ناراض کر دیا ہے۔امریکہ کا ڈبلیو ایچ او سے نکلنا بھی یورپ کے لیےپریشانی کا سبب بنا ہے۔امریکی پالیسیاں یورپ کےلیےدفاعی اخراجات بھی بڑھا رہی ہیں اور معیشت کے لیے بھی کمزوری کا سبب بن رہی ہیں۔امریکہ کی طرف سےیہ وارننگ بھی دی گئی ہے کہ تیل اور انرجی کی خریداری امریکہ سے نہ کی گئی تومزید مشکلات بڑھیں گی۔امریکہ اور چین کی معیشتیں یورپ کے علاوہ دنیا بھر کے لیےخطرناک ثابت ہو رہی ہیں۔امریکہ خودبھی معاشی لحاظ سے مضبوط ہونے کے باوجود بھی کئی مسائل کا سامنا کر رہا ہے،کیونکہ اس نے تقریبا پوری دنیا میں اپنے بازو پھیلا رکھے ہیں اور اسی وجہ سے اس کے اخراجات میں بھی اضافہ ہواہے۔بڑھتے اخراجات کو پورا کرنے کے لیےسرمائے کا رخ امریکہ کی طرف کیا جا رہا ہے۔سعودی عرب بھی 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے اوریہ سرمایہ کاری امریکی دباؤ پر کی گئی ہے۔امریکہ نے بہت سے ممالک کی امداد بھی بند کر دی ہےاور اس کے اثرات ان ممالک کی معیشتوں پر بھی پڑرہے ہیں جو یہ امداد وصول کر رہے تھے۔یورپی یونین کے کئی ممالک اپنے دفاع کو بھی مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ کسی ممکنہ خطرے سےاپنا بچاؤ کیا جا سکے۔جو ممالک اپنے دفاع کو مضبوط نہیں کر رہے،وہ مستقبل میں شدید پریشانیاں اٹھائیں گے۔مشرق وسطی میں بد امنی نے بھی دنیا کی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا ہےاور دیگر خطوں میں پھیلے انتشارعالمی معیشت پراپنے اثرات ڈال رہے ہیں۔
امریکہ جہاں یورپی یونین کے لیےپریشانیاں کھڑی کر رہا ہے،وہاں عرب ممالک اور اسلامی ممالک سمیت مختلف کمزور معیشتوں کےمالک ممالک کے لیے بھی خطرات پیدا کر رہا ہے۔عالمی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے والے ممالک اپنی توانائیاں مثبت معیشت کی طرف موڑیں تو عالمی معیشت آسانی سے خطرات سے نکل سکتی ہے۔کمزور ممالک اپنا اتحاد بنا کراور ایک دوسرے کو آسانیاں دے کرمعاشی حالت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ڈالر کے مقابلے میں مضبوط کرنسی کا تصورکئی ممالک کا خواب ہےاور اس کے لیے کوششیں جاری ہیں۔برکس کرنسی ڈالر کا خلا پر کر سکتی ہے،لیکن اس کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا۔بدلتے حالات انجانے خدشات پیدا کر رہے ہیں اور ان خدشات پر غور و فکرکرکے اور سنجیدگی اختیار کر کےقابو پایا جا سکتا ہے۔یہ حالات فوری طور پر خراب نہیں ہوئے بلکہ کافی عرصہ سےخرابی کی طرف بڑھنا شروع ہوئےہیں۔چین اپنی معیشت کومضبوط بنانے کے لیےبہت زیادہ تگ و دو کر رہا ہےاور اس کا ساتھ دے کرکئی ممالک اپنی معیشت کومضبوط کر سکتے ہیں۔یورپ کےہیلتھ اور ڈیفنس سیکٹرکے اخراجات بڑھ چکے ہیں اور ان پر قابو پانے کے لیے کافی مشکلات پیش آرہی ہیں۔یورپی یونین نیا اقتصادی ڈھانچا بنا کرمضبوطی کی طرف کوشش کر رہا ہے،اسی طرح دوسرے ممالک بھی اپنے اپنے ماڈل پر کام کریں تاکہ وہ اپنی معیشتوں کو سنبھال سکیں۔اگر کمزور ملک ہو یا طاقتور، اپنی معیشت کے لیے بڑھتے خطرات کوبھانپ لے اور اس کے لیے کام شروع کر دے تو مستقبل میں معاشی حالت کو خرابی سے بچا سکتا ہے۔پریشانیاں اور معاشی خرابیاں آتی رہتی ہیں،لیکن ان پرغور و فکر کر کے قابو پایا جا سکتا ہے۔کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جو طاقتور معیشت کے مالک ہونے کے باوجود بھی بدترین حالات کا شکار ہوئےاور کئی ممالک کمزور معیشتوں کا مالک ہونے کے باوجود بھی حالات بہتر بنانے میں کامیاب ہوئے۔
Leave a Reply