rki.news
تحریر: احسن انصاری
اکتوبر اور نومبر 1947 میں جموں میں مسلمانوں کا جو قتلِ عام ہوا، وہ برصغیر کی تاریخ کے سب سے سیاہ اور المناک ابواب میں سے ایک ہے۔ صرف دو ماہ کے عرصے میں ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کی فوج، شدت پسند ہندو اور سکھ جتھوں اور آر ایس ایس کے انتہاپسندوں نے منظم طریقے سے ڈھائی لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ یہ منظم نسل کشی جموں کی آبادیاتی ساخت بدلنے کے لیے کی گئی، جس کے نتیجے میں مسلمان جو کبھی اکثریت میں تھے، اقلیت میں بدل گئے اور اس تبدیلی کے اثرات آج بھی مقبوضہ جموں و کشمیر کی سیاست، معاشرت اور شناخت پر غالب ہیں۔
1947 میں تقسیمِ ہند کے وقت جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی جس پر ہندو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ حکمران تھا۔ اُس وقت ریاست کی 77 فیصد آبادی مسلمان تھی، جبکہ صرف جموں صوبے میں مسلمانوں کا تناسب 61 فیصد تھا۔ تقسیم کے بعد جب پورے برصغیر میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلی، تو ہری سنگھ کی حکومت نے ایسے اقدامات کیے جنہوں نے مسلمانوں کو کمزور کر دیا۔
مسلمان سپاہیوں کو فوج سے نکال دیا گیا، مسلمان پولیس افسران کو برطرف کر دیا گیا، اور عام شہریوں سے اسلحہ ضبط کر لیا گیا — تاکہ وہ دفاع سے محروم ہو جائیں۔
انہی مہینوں میں بھارت کے پنجاب سے آر ایس ایس کے انتہاپسند اور پٹیالہ و کپورتھلہ سے مسلح سکھ جتھے جموں لائے گئے۔ برطانوی اخبار دی ٹائمز (لندن) کی 10 اگست 1948 کی رپورٹ کے مطابق، “دو لاکھ سینتیس ہزار مسلمانوں کو منظم طور پر ختم کر دیا گیا، ماسوائے اُن کے جو پاکستان کی سرحد عبور کر کے بچ نکلے۔” دیگر مؤرخین کے مطابق یہ تعداد دو لاکھ ساٹھ ہزار سے بھی زیادہ تھی وہ بھی صرف دو ماہ کے قلیل عرصے میں۔
یہ قتلِ عام اچانک بھڑکنے والا سانحہ نہیں تھا بلکہ ایک منظم اور منصوبہ بند نسل کشی تھی۔ ڈوگرہ حکومت کے زیرِ کمان نیم فوجی دستے، آر ایس ایس کے شدت پسند اور سکھ جتھے مل کر مسلم بستیوں پر حملہ آور ہوئے۔ ہزاروں مسلمانوں کو اُن کے گھروں میں قتل کیا گیا، مساجد جلا دی گئیں اور بستیاں مٹا دی گئیں۔
متعدد چشم دید گواہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کو دھوکے سے ٹرکوں میں بٹھایا گیا کہ انہیں پاکستان بھیجا جائے گا، مگر راستے میں سب کو شہید کر دیا گیا۔
اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے بھارت و پاکستان (UNCIP) کی 1949 کی رپورٹ “Report of the Subcommittee on Western Kashmir” میں ایک محصولی افسر کا بیان شامل ہے جس نے کہا کہ “میں نے 20 اکتوبر 1947 کو بھمبر میں خود مہاراجہ کو مسلمانوں کے خاتمے کا حکم دیتے اور چند کو اپنی بندوق سے مارتے دیکھا۔” یہ گواہی اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ قتلِ عام خود ریاستی سرپرستی میں ہوا۔
مشہور کشمیری پنڈت صحافی وید بھاسن نے، جو ان واقعات کے چشم دید گواہ تھے، بعد میں کہا: “یہ قتلِ عام آر ایس ایس کے کارکنوں کی جانب سے منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا، جنہیں سکھوں کی مدد اور ڈوگرہ حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ مقصد جموں کی آبادیاتی ساخت کو بدلنا تھا۔”
یہ سانحہ اتنا شدید تھا کہ حتیٰ کہ مہاتما گاندھی کو بھی اس پر لب کشائی کرنی پڑی۔ 25 دسمبر 1947 کو اُنہوں نے کہا (جو ان کے Collected Works جلد 90 میں درج ہے) “جموں کے ہندو اور سکھ، اور وہ جو باہر سے آئے، انہوں نے مسلمانوں کو قتل کیا۔ مہاراجہ کشمیر اس کا ذمہ دار ہے۔ مسلم عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔”
اسی طرح جواہر لال نہرو نے 17 اپریل 1949 کو سردار ولبھ بھائی پٹیل کے نام ایک خط میں انٹیلی جنس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ “مہاراجہ ہری سنگھ اور آر ایس ایس نے مل کر مسلمانوں کی نسلی صفائی کی تاکہ مستقبل میں کسی رائے شماری کی صورت میں آبادی کا تناسب ان کے حق میں ہو۔”
1947 کے اختتام تک تقریباً پانچ لاکھ مسلمان جموں سے ہجرت پر مجبور ہو گئے اور پاکستان کے صوبہ پنجاب اور آزاد جموں و کشمیر میں پناہ لی۔ جموں، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور راولپنڈی کے کیمپوں میں ان مہاجرین نے عارضی طور پر پناہ پائی۔ ان کی غیر موجودگی نے جموں کی آبادیاتی اکثریت کا نقشہ بدل دیا۔
جہاں کبھی مسلمان غالب تھے، وہ اقلیت میں بدل گئے اور یہ تبدیلی آج تک برقرار ہے۔
اس قتلِ عام کے باوجود عالمی برادری کی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔
دنیا نے نازیوں کے مظالم اور امریکہ کے 9/11 حملوں پر تو بھرپور ردِعمل دکھایا، مگر جموں کے مسلمانوں کی نسل کشی پر تقریباً مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔
جبکہ 9/11 میں 2,976 افراد جاں بحق ہوئے، جموں میں تقریباً 2,60,000 مسلمان صرف دو ماہ میں شہید کر دیے گئے — یعنی 9/11 کے مقابلے میں سو گنا زیادہ ہلاکتیں۔
آج فلسطین کے علاقے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں تقریباً 67 ہزار افراد شہید ہوئے ہیں، مگر جموں کا قتلِ عام اس سے بھی کہیں زیادہ بھیانک اور وسیع تھا۔ اس کے باوجود دنیا کی بے حسی اب بھی برقرار ہے۔
جموں کا قتلِ عام دراصل کشمیریوں کے دکھوں کا آغاز تھا، اختتام نہیں۔
1948 میں بھارت نے ریاست پر فوجی قبضہ کر کے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو کچل دیا۔
یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
جنیوا کنونشنز کے 1977 کے اضافی پروٹوکول اول کے آرٹیکل 85(4)(a) کے مطابق “قابض طاقت کی جانب سے اپنی آبادی کو زیرِ قبضہ علاقے میں منتقل کرنا بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے”۔
بھارت کا موجودہ طرزِ عمل اسی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
آج بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر (IIOJK) دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ ہے جہاں ایک ملین کے قریب بھارتی فوجی تعینات ہیں، جو انسانی حقوق کی پامالیوں، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہیں۔
1947 کی نسل کشی کا نظریہ آج مودی حکومت میں زندہ ہے۔ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت، جو آر ایس ایس کے نظریات سے متاثر ہے، نے کشمیر کی آبادی بدلنے کے منصوبے کو عملی شکل دینا شروع کر دی ہے۔ اگست 2019 میں آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد غیر کشمیریوں کو کشمیر میں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت دے دی گئی۔اس کے بعد سے لاکھوں کنال اراضی غیر مقامی شہریوں کو منتقل کی گئی، جبکہ ہزاروں کشمیریوں کے مکانات “شہرِ سرینگر 2035 پلان” کے نام پر منہدم کیے گئے۔
تخمینوں کے مطابق 34 لاکھ سے زائد غیر کشمیری کشمیر لائے جا چکے ہیں، جو دراصل ایک نوآبادیاتی منصوبہ ہے، بالکل ویسا ہی جیسا اسرائیل فلسطین میں کر رہا ہے۔
آج، 78 برس بعد بھی، کشمیری عوام ظلم و جبر کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہر سال 6 نومبر کو دنیا بھر میں کشمیری “یومِ شہدائے جموں” مناتے ہیں، تاکہ اُن بے گناہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا سکے جنہیں 1947 میں بے دردی سے شہید کیا گیا۔
کرشن دیو سیٹھی، جو جموں کے معروف سیاسی رہنما تھے، نے 2011 میں ایک انٹرویو میں کہا:
“مہاراجہ اور اس کی حکومت نے دانستہ طور پر فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی تاکہ مسلمانوں کے قتلِ عام کا جواز پیدا کیا جا سکے۔”
ان کا یہ بیان اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ یہ سب ایک ریاستی منصوبہ تھا، جس کے اثرات آج بھی برقرار ہیں۔
جموں کا 1947 کا قتلِ عام صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ کشمیر کے المیے کی بنیاد ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ظلم، ناانصافی اور آبادیاتی جارحیت کی ایک پالیسی نے جنم لیا۔ جو آج بھی بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں جاری ہے۔
دنیا کی خاموشی نے ظالم کو حوصلہ دیا اور مظلوم کو تنہا چھوڑ دیا۔
کشمیر میں انصاف اور پائیدار امن کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دنیا اس تلخ حقیقت کا سامنا نہیں کرتی کہ کشمیر کی نسل کشی کا آغاز 1947 میں ہوا تھا۔ اور آج تک ختم نہیں ہوا۔
Leave a Reply