شازیہ عالم شازی
نہیں پروا کوئی زمانے کی
کون کیا سوچتا ہے کس کے لیے
مقصدِ زیست کامیابی ہے
وقت کیا چاہتا ہے کس کے لیے
صنفِ نازک ہوں یوں تو کہنے کو
حوصلے ہیں چٹان کے مانند
ہے گھنا میری سوچ کا سایہ
نیلگوں آسمان کے مانند
اپنے ہونے پہ فخر ہے مجھ کو
یہ تو ہر دور کی کہانی ہے
کبھی نفرت ، کبھی پذیرائی
ہم کو ہر عہد میں ہوئی حاصل
کبھی راحت، کبھی یہ رسوائی
اس کا ہرگز نہیں ہے یہ مطلب
حوصلے اپنے چھوڑ بیٹھوں میں
جس سے رشتوں کا مان ہو قائم
اس سے رشتہ ہی توڑ بیٹھوں میں
وقت کی تیز آندھیوں میں یہاں
چاہتوں کے دیے جلاتی ہوں
اپنے ہونے پہ فخر ہے مجھ کو
پاس رکھتی ہوں علم و حکمت کا
ہر کسی سے الجھ نہیں سکتی
میں ستاروں کے درمیاں رہ کر
روشنی سے الجھ نہیں سکتی
میری تہذیب کا تقاضا ہے
خامشی کی زباں میں بات کروں
بھول کر بھی مری خموشی کو
اب یہاں شور نہ سمجھا جائے
لڑنا آتا ہے اپنے حق کے لیے
مجھ کو کمزور نہ سمجھا جائے
Leave a Reply