تازہ ترین / Latest
  Tuesday, October 22nd 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

یوم پاکستان،، ، ٹوٹا ہوا ملک اور اپنا گھر

Articles , Snippets , / Saturday, March 23rd, 2024

صمد ایک چار سال کا معصوم سا گھپلو سا گورا چٹا بچہ تھا جس کے پھولے پھولے گلابی گال, پہاڑی سیبوں کی طرح دمکتے تھے وہ ایک ہنس مکھڑا اور ملنے ملانے والا بچہ تھا اسکول میں بھی اس کی تقریباً اپنی کلاس کے تمام بچوں سے ہیلو ہاے تھی گھر میں بھی وہ اکثر ہی لطیفے اور چٹکلے چھوڑ کر ماحول کو گلزار ہی بناے رکھتا تھا مگر صمد کی ماں مسز ایوب پچھلے کءی دنوں سے دیکھ رہی تھی کہ صمد بہت گم صم اور انتہائی چڑ چڑا ہو چکا ہے. مسز ایوب اچھی انسان ہونے کے ساتھ ساتھ سکول کےبچوں کوcharacter building کا درس بھی دیتی تھیں. ان کے میاں ایوب گل ایک اچھی پوسٹ پہ تھے آج کل ایوب کے تایا زاد بھائی اپنے بای پاس کے سلسلے میں بمعہ اپنی فیملی کے ایوب گل کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے گھر میں خوب رونق، اٹھا، پٹخ اور عجب سی ہڑبونگ مچی ہوئی تھی وہ گھر جو پہلے نک سک سے صاف ستھرا رہتا تھا اور ہر پل تہذیب و تمدن کا گہوارہ نظر آتا تھا اب کوئی میدان جنگ دکھائی دیتا تھا. مسز ایوب ملازمہ کے ساتھ ساتھ گھر کی صفائی کر کر کے تھک جاتی تھیں مگر مہمانوں اور ان کے بچوں کو گویا ایک کھیل مل گیا تھا ادھر سے صفائی ستھرای اور چیزوں کی ترتیب مکمّل ہو تی ادھر سے کشنز، ڈیکورشن پیسز، گلدستوں کی اٹخ پٹخ دوبارہ سے شروع ہو جاتی مسز ایوب انتہائی سلجھی ہوی خاتون تھیں مہمان اور بیمار کے رتبے سے آگاہ تھیں شوہر کی بھی تابعدار تھیں مگر ان دیہاتی اور بیمار رشتہ داروں نے تو انھیں واقعی میں زچ اور ان کے بیٹے صمد کو emotionally
Upset کر چھوڑا تھا
ماں نے جب بیٹے کو پاس بٹھا کے اس کی. پریشانی کی وجہ پوچھی تو بیٹے نے لمبی چوڑی بات کرنے کی بجائے صرف ایک سوال پوچھا ماں یہ سب لوگ ہمارے گھر میں کیوں آ ے ہیں؟ ماں نے کہا بیٹا مشکل میں ہیں اور اپنے علاج معالجے کے لیے آے ہیں چند روز بعد چلے جایں گے مگر ننھے صمد نے حیرت سے اپنی آنکھیں بڑی بڑی کرتے ہوے کہا ماما اچھی مشکل میں ہیں دوسروں کا جینا مشکل کر دیا ہے تو ایک فطرتی امر ہے ہم اور آپ بھلے چھوٹے ہوں یا بڑے اپنی املاک، اپنی چیزوں اپنے رشتوں اور اپنے گھروں کے بارے میں بہت محتاط ہوتے ہیں. اور جب کوئی ہمارے وقت، رشتوں، چیزوں پہ خواہ مخواہ کا قبضہ جمانے کی کوشش . کرتا ہے تو ہم ایک حد تک ہی صبر کر پاتے ہیں اس کے بعد ہم اپنے صبر کے دامن سے ہاتھ چھوڑ کر اپنے جلالی روپ میں وآپس آ جاتے ہیں. دیہاتوں میں بھی یہ تیری میری کے رولے کءی دفعہ بڑے بڑے جنگ و جدل کا روپ دھار لیتے ہیں چھوٹے چھوٹے زمین کے ٹکروں پہ شروع ہونے والی لڑائیاں کءی کءی زندگیوں کو نگل جاتی ہیں . کءی نسلوں تک چلنے والے لڑای جھگڑے
کءی نسلوں کے ہنر، وقار، امن،بھای چارے اور خوشیوں کو نگل کے بھی کسی پھنیر ناگ کی مانند سر اٹھاے کھڑے ہی رہتے ہیں.
ایسا ہی ماجرا گھروں میں بھی درپیش ہو جاتا ہے جب ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے ایک ہی گھر میں اپنی اپنی وراثت پہ اونچی اونچی دیواریں کھڑی کر کے اچھے بھلے گھر اور حویلی کو کءی چھوٹے چھوٹے ڈربوں میں منتقل کر دیتے ہیں تو کیا جس سکون کی تلاش میں وہ یہ ساری جدوجہد اور جنگ و جدل کرتے ہیں تو کیا وہ سکون اور وہ امن و ایمان وہ حاصل کر پاتے ہیں؟ کیا سکون کی ردا اوڑھ کے سو پاتے ہیں؟ یا پھر پہلے سے بھی زیادہ بے امن اور بے سکون ہو جاتے ہیں.؟
بات غور طلب اور سوچنے کی ہے کہ کونسی شے ہے جو ایک جیتے جاگتے زندہ انسان کو اپنے ہی جیسے گوشت پوست کے بنے ہوے جیتے جاگتے اور زندہ انسان سے نفرت پہ آمادہ خیال کرتی ہے،؟ کونسی شے ہے جو ایک انسان کو اپنے ہی جیسے دوسرے انسان سے حسد کرنے پہ مجبور کرتی ہے؟ کونسی شے ہے جو ایک معمولی سانسوں کے محتاج انسان کو دوسرے زندہ و جاوید انسان کی جان لینے پہ مجبور کر دیتی ہے؟ . کیا حسد ہے جو انسان کو اتنے شعور اور ہدایت کے باوجود بھی جانور اور بھیڑیا بنبے پہ مجبور کر دیتا ہے؟ اور دنیا میں انسانی وجود کے آنے سے لیکر اب تلک جہاں مرضی نظر دوڑا کر دیکھ لیں دنیا کے ہر خطے میں انسانی خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ایک طرف تو پرندوں، جانوروں اور مظلوموں سے محبت کا درس دیا جاتا ہے بڑی بڑی این جی اوز بڑے پیمانے پہ کام کر رہی ہیں غریب غرباء کو ہنر سکھانے سے لے کرمفت تعلیم تک ہر جتن کیا جا رہا ہے ٹیکنالوجی کے اس ساینسی زمانے میں جہاں مریخ پہ انسان کو آباد کرنے کامیاب کوششیں کی جا چکی ہیں
میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ کینسر اور ایڈز جیسے موذی امراض تک کا علاج معالجہ ہو رہا ہے تو پھر انسان پورپ سے پھچھم اور دکھن سے پربت تک کس عذاب ناگہانی میں مبتلا ہے. کہ خنجر چاقو، چھریاں ، تلواریں، تیر، برچھیاں،دنڈے،بھالے تو ایک طرف ایٹمی اور نیوکلیئر بم اور ڈرون حملوں نے انسانیت کی اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی ہے. اللہ جانے زمین کو اپنی سیرابی کے لیے کتنا خون چاہیے؟ . دھرتی ماں تو ماں ہے ناں
کتنا خون جلایں ہم
کتنے لعل گنوایں ہم
دھرتی ماں تو ماں ہے ناں؟
تو ایسے ہی کبھی انڈو پاک پہ انگریزوں کی حکومت تھی تقریباً چار صدیوں تک مسلمانوں کی حکمرانی کے بعد انگریزوں نے تقریباً ایک سو سال تک اس علاقے پہ جی بھر کے اپنی عیاری، مکاری اور چالاکی ہوشیاری کا پرچار کیا وہ مثل مشہور ہے ناں کہ آگ لینے گیے تھے اور پیغمبری مل گءی. اسی طرح ساری دنیا کو بدھو جان کے دوسروں کی سرزمین پہ مالکوں کو ہی یرغمال بنا کے اپنوں میں پھوٹ ڈلوا کے حکمرانی بلکہ سر عام غنڈہ گردی کرنا برٹش ایمپایر کا ہی کام تھا انگریز بھلے جتنا بھی کایاں تھا انڈو پاک کے لوگوں میں یہ احساس پوری شدت سے جڑ پکڑ چکا تھا کہ برطانوی راج کے عفریت سے چھٹکارا پانے ہی میں خطے کے لوگوں کی بقا ہے علیگڑھ یونیورسٹی کا قیام، مسلم لیگ کی بنیاد اور دو قومی نظریہ انھی اقدامات کی کڑیاں تھیں اور بھگت سنگھ کی قربانی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ برطانوی سامراج کو ہمارے ملک کو چھوڑ کر اپنے دیس جانا چاہیے. زندگی کے تمام شعبوں میں پستے ہوے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کا قیام عمل میں لایا جا سکے جہاں مسلمانوں کو زندگی کے تمام شعبوں میں یکساں طور پر آگے بڑھنے کے مواقع میسر ہو پاءیں. 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسل لیگ کے سالانہ اجلاس میں جو منٹو پارک لاہور میں منعقدہوا جہاں مسلمان مملکت کے علیحدہ قیام کا نظریہ پاس ہو گیا اسے یوم پاکستان کہتے ہیں اور یہ ہر 23 مارچ کو پوری شان و شوکت سے منایا جاتا ہے زندگی کے تمام شعبوں میں کارہاے نمایاں سر انجام دینے والوں کو حکومتی سطح پر مختلف ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے.
ہر نسل اپنی انے والی نسل کے بہتر مستقبل کے لیے ان کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ملکی اور حکومتی سطح پر کچھ ایسے اقدامات ضرور کرتی ہے جس کا فائدہ آنے والی نسلیں اٹھاتی ہیں تو قایداعظم محمد علی جناح جیسے بڑے لیڈر نے جب ہندوستان کے مسلمانوں کو زندگی کے تمام شعبوں میں پستے ہوے دیکھا اور یہ بھی جانچ کر لی کہ ہندو اور مسلمان مذہبی، سماجی اور معاشرتی لحاظ سے دو الگ الگ قومیں ہیں اور ان کے رہن سہن اور طرز معاشرت میں زمین آسمان کا فرق ہے تو اسی نظریے نے ہندوستان کے تمام مسلمانوں، مردوں، عورتوں، بوڑھے بچوں اور طالب علموں کو اس ایک نعرے پہ متحد کر دیا کہ اب انگریزی سامراج اور ہندووں کی مزید زیادتیاں برداشت نہیں کرنی اور پھر الگ وطن کے حصول کے لیے جوششیں تیز سے تیز ہوتی گییں
لے کے رہیں گے پاکستان
بن کے ریے گا پاکستان
کے نعروں نے ایک عوامی حیثیت اختیار کر لی. اور 23 مارچ 1940 کو اسلامی نظریاتی مملکت کے قیام کی قرارداد منظور ہو گءی اس دن کو یوم پاکستان یا یوم لاہور بھی کہا جاتا ہے اور پھر تمام مسلمان راہنماؤں نے قایداعظم کی راہنمائی میں تقریباً سات سال بعد اپنا الگ ملک حاصل کر ہی لیا 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پہ معرض وجود میں آنے والے اسلامی ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا اس مملکت کا قیام آسان نہ تھا لاکھوں لوگ ہجرت کر کے ادھر سے ادھر ہوے لاکھوں لوگ شہید ہوے لاکھوں خواتین کی عصمت دری کی گءی
یہ تقسیم بغیر کسی جنگ و جدل کے بھی تو ہو سکتی تھی ناں مگر انگریزی سامراج کی سیاست اور مکر و فریب کی قیمت ہمارے بزرگوں نے چکای
بقول شاعر
چلی ہے دشمنوں نے چال ایسی
کہ اپنوں ہی میں جھگڑا ہو رہا ہے
تقسیم کے نام پہ اپنے اپنوں کا سر کاٹتے ریے اور بیگانے یہ تماشا کروا کے محظوظ ہوتے رہے. چلو یہاں تک بھی ٹھیک تھاپاکستان کی جغرافیائی حدیں ہزاروں میلوں کی دوریوں پہ تھیں یہ بھی انگریز اعر ہندو ذہن کی شاطرانہ چالوں میں سے ایک انتہائی خطرناک چال تھی فاصلے اتنے تھے اور کچھ ملک و قوم کی بدقسمتی کہ سچے اور کھرے حکمرانوں کو شروع ہی میں کھڈے لاین لگا دیا گیا اور حکمرانی چھین لی ملک دشمن عناصر نے جو ایک طویل عرصے سے ملک و قوم کا خون چوس رہے ہیں انہیں ملک اور عوام سے کچھ سروکار نہیں ان کا مقصد اپنی بھوکی اور سدا بھوکی تجوریاں بھرنا ہے اور اس گھناونے فعل کو سر انجام دیتے دیتے وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دسمبر 1971 میں دو لخت کر چکے ہیں اور ابھی بھی ملک کی نیک نامی کو زک پہنچانے کا کوی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ہم عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کبھی یوم لاہور، کبھی یوم پاکستان کبھی یوم آزادی کبھج یوم دفاع تو کبھی اقبال اور قائد اعظم ڈے منانے پہ لگا دیتے ہیں اور یقین کیجیے ملک مقروض ہر چہرہ زخمی، نوجوان نسل ان سماجی گھپلوں سے اتنی پریشان ہے کہ بیرون ملک ہجرت کرنے کو ترجیح دیتی ہے تو غور فرمائیے گا ایک صدی سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہم الگ مملکت کے حصول کے باوجود بھی آزاد نہ ہو پاے اللہ پاک ہمارے عوام اور حکمرانوں دونوں کو امن، سکون اور نجات دے آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International