rki.news
تاریخ، مذہب، سیاست اور انسانیت کے چوراہے پر ایک نوحہ
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ انسانی کے بےرحم صفحات پر اگر کوئی قوم اپنی مظلومیت کی طویل داستان کے ساتھ ثبت ہے، تو وہ یہودی قوم ہے۔ بابل کے قیدی، فرعون کے غلام، ہٹلر کے عقوبت زدہ، اور قرونِ وسطیٰ کے مظلوم ، یہ سب پہچانیں کبھی اس قوم کے ماتھے پر لکھی گئیں۔ ان کے ساتھ وہ کچھ ہوا جو کسی قوم کے ساتھ نہ ہونا چاہیے تھا۔ مگر جب مظلوم طاقت پاتا ہے اور انصاف کی بجائے انتقام کا جام پیتا ہے، تو وہ خود ظلم کا پیکر بن جاتا ہے۔ اور آج یہودی قوم، خاص طور پر اسرائیلی ریاست، اسی بھیانک انجام کا نمونہ بن چکی ہے۔
قرآن کریم میں بنی اسرائیل کا ذکر درجنوں مقامات پر آیا ہے۔ انہیں “افضلُ العالَمین” کہا گیا ۔
“ہم نے تمہیں جہانوں پر فضیلت دی” (البقرہ: 47)، انہیں انبیاء کی وراثت دی گئی، ہدایت عطا کی گئی، آسمانی خوراکیں نازل ہوئیں، سمندر کو راستہ دیا گیا۔ مگر جب انہوں نے نعمتوں کے جواب میں تکبر، نافرمانی، اور ظلم کا راستہ اپنایا، تو ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کی گئی۔ “وَضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ” (البقرہ: 61) ۔
یہی وہ تاریخی موڑ تھا جہاں برگزیدگی، بغاوت میں بدل گئی۔
تورات میں بھی انبیائے بنی اسرائیل کی تنبیہات بھری پڑی ہیں۔ نبی یسعیاہ، نبی یرمیاہ، اور حزقی ایل نے بارہا بنی اسرائیل کو عدل و انصاف کے قیام کی تلقین کی۔ نبی یرمیاہ کی یہ پکار آج بھی گونجتی ہے:
“اگر تم اپنے راستے درست کرو، عدل سے کام لو، اور مسکینوں، یتیموں، پردیسیوں پر ظلم نہ کرو، تو خدا تمہارے ساتھ ہے” (یرمیاہ 7:5-7)۔
مگر آج وہی قوم غزہ کے یتیموں پر بم برسا رہی ہے، پردیسیوں کو ان کے گھروں سے نکال رہی ہے، اور عدل کو دبیز دیواروں کے پیچھے دفن کر چکی ہے۔
غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ محض سیاسی تنازعہ نہیں، بلکہ ایک روحانی بحران ہے۔ اسرائیل نے مظلومیت کی تاریخی حیثیت کو ایک ہتھیار میں بدل کر عالمی ضمیر کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ہولوکاسٹ کی سچائی کو جواز بنا کر فلسطینیوں کی نسل کشی کو جائز قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ عمل نہ صرف انسانیت، بلکہ خود یہودی مذہب کی روح کے خلاف ہے۔ کیا وہ شریعت جو “جان بچانے کو سب سے بلند فرض” قرار دیتی ہے، آج اسرائیلی فوج کے ہاتھوں بچوں کی جانیں لیتے ہوئے خاموش ہے؟
قرآن بنی اسرائیل کو یاد دلاتا ہے:
“وَلاَ تَعۡثَوۡاْ فِي ٱلۡأَرۡضِ مُفۡسِدِينَ”
“زمین میں فساد نہ پھیلاؤ” (البقرہ: 60)۔
مگر آج فلسطین کی زمین چیخ چیخ کر اس حکم الٰہی کی پامالی کی گواہی دے رہی ہے۔
یہ قوم جس نے فرعون کی قید سے نجات پائی، آج خود فرعونیت کی علامت بن گئی ہے۔ موسیٰؑ کی تعلیمات جن میں عدل، مساوات، رحم، اور خدا خوفی تھی ، وہ تعلیمات آج بندوق کی نالی کے نیچے دم توڑ چکی ہیں۔ غزہ کا ہر زخمی بچہ، ہر شہید ماں، ہر بےگھر خاندان، بنی اسرائیل کے دعوائے برگزیدگی کو جھٹلا رہا ہے۔
ہمارا زمانہ، جسے سائنسی ترقی کا دور کہا جاتا ہے، روحانی طور پر اندھا ہو چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور مغربی میڈیا سب اسرائیلی بیانیے کے سامنے بےبس ہیں۔ اور جب عالمی طاقتیں ظالم کا ساتھ دیتی ہیں، تو مظلوم کا خون مقدس ہو جاتا ہے ، تاریخ کے لیے، ضمیر کے لیے، اور قیامت کے دن کے لیے۔
اسرائیل کو اب رک کر سوچنا ہوگا۔ کیا وہ واقعی “خدا کی چنیدہ قوم” ہے، یا “خدا کی نافرمان قوم”؟ کیا غزہ میں بہنے والا خون خدا کی رضا ہے، یا اس کے غضب کی پیش گوئی؟ کیا انہیں یاد نہیں کہ ظلم کا انجام کیا ہوتا ہے؟ قرآن کہتا ہے:
“إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبۡرَةٗ لِّمَن يَخۡشَىٰ”
“یقیناً اس میں عبرت ہے اُس کے لیے جو ڈرتا ہے” (النازعات: 26)۔
تاریخ کے پہیے تیزی سے گھوم رہے ہیں۔ غزہ کے ملبوں سے جو صدائیں اٹھ رہی ہیں، وہ محض فریادیں نہیں، بلکہ آنے والے کل کی گواہیاں ہیں۔ وہ قوم جو دوسروں کو تاریخ سے عبرت لینے کی تلقین کرتی تھی، آج خود عبرت بننے کے دہانے پر کھڑی ہے۔
اب بھی وقت ہے۔ اگر اسرائیل، اگر یہودی قوم، اپنے رب کے وعدوں اور وعیدوں کو یاد کرے، اگر وہ عدل، رحم، اور سچائی کی راہ پر واپس آئے، تو شاید زخموں کی یہ زمین کچھ سکون پا سکے۔ مگر اگر وہ اسی راستے پر گامزن رہی، تو دنیا کی کوئی طاقت اسے سقوط کے انجام سے نہیں بچا سکے گی۔
Leave a Reply