تازہ ترین / Latest
  Tuesday, October 22nd 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

یہ جو میرے لفظو ں کے پھول ہیں

Articles , Snippets , / Sunday, March 24th, 2024

تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین!زندگی کے سفر میں قوت گویائی کا کردار بہت اہم ہے۔الفاظ کی دولت سے انسان نہ صرف مقصد حیات بیان کر پاتا ہے بلکہ ترجمانی کا حق بھی ادا کرپاتا ہے۔زبان چوں کہ قدرت کی بڑی عطا ہے۔اس سے انسان نہ صرف باتیں کرتا بلکہ اللہ کریم کی حمد و ثنا بھی بیان کرتا ہے۔اچھے الفاظ کی سوغات سے اسلوب زندگانی میں رونق پیدا ہوتی ہے۔اچھے الفاظ اور کلمات سے وقار انسانیت بلند بھی ہوتا ہے۔یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے بقول شاعر:.
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ گزر رکھتی ہے
یہ بات تو مسلمہ ہے پھول اپنی خوشبو اور انسان اپنے طرز گفتگو سے شناخت پاتا ہے۔زندگی کے خوش گوار اثرات بھی تو طرز گفتگو اور اسلوب بیاں سے پیدا ہوتے ہیں۔اس کے پس منظر میں دیکھیں تو انسان کو زندگی کے سفر میں عجب کیفیات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بقول شاعر:.
نہ جانے اجنبیت کیوں دلوں میں آگئی اتنی
میرے اپنوں کے سب چہرے مجھے انجان لگتے ہیں
سماج میں فاصلے اس قدر طویل ہوتے محسوس ہوتے ہیں گویا محبتیں دم توڑ رہی ہیں۔زبان سے ادا ہونے والے الفاظ اور کلمات میں تلخی کیوں؟یہ مقام غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔کہ آج انسان اپنے مقام سے غافل کیوں؟مخاصمت اور رنجشوں کی ہوائیں چلنے سے زندگی اداس لگتی ہے۔انسان کی فطرت ہے اسے چاہتوں بھرے کلمات سننے کی تمنا ہوتی ہے۔انسان ایسے ماحول کی تلاش میں رہتا ہے جہاں محبت کی فصل اگتی ہو۔اسے نفرتوں کے خار نہیں الفت کے پھول چاہیے ہوتے ہیں۔آج المیہ ہے کہ انسان خود اناپرستی کے خول کا اسیر ہونے سے محرومیوں کا شکار ہے۔بقول شاعر:.
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
آج اچھی بات بھی سننے کے لیے حوصلہ نہیں۔حیات انسانی میں غیر اطمینان بخش کیفیت پائی جاتی ہے۔اس ضمن میں اتنی سی گذارش کی جاتی ہے کہ نفرتوں کا زہر کم کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔تاکہ سماج کی رونقیں بحال رہیں۔بقول شاعر:.
اس زندگی میں مان جسے مال و زر پہ تھا
دو گز زمیں مرتے ہی جاگیر بن گئی
انسان تو سراۓ زندگی میں ایک مسافر ہے۔اس کی آمد کا مدعاتو عبادت الٰہی ہے ۔لیکن نہ جانے طاغوتی قوتوں کے غلبہ سے کیوں انتشار کا شکار ہوۓ۔گھر گھر میں بے اطمینانی کی کیفیت,نگر نگر فساد اور فتنے,ایک خوشگوار تبدیلی سچے اسلامی عقائد,عبادات,نظریات اور اخلاقیات سے ممکن ہے۔نیز احساس زندہ کرنے کی ضرورت بھی ہے۔نقول شاعر:۔
آج پھر روح میں اک برق سی لہراتی ہے
دل کی گہرائی سے رونے کی صدا آتی ہے
انسانیت کا معیار اس قدر پست کیوں؟
اس کے منظر نامہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔جس مصرعہ کو کالم کا عنوان بنایا اسے شاعر نے کس قدر خوب صورتی ہے بیان کیا
یہ جو میرے لفظوں کے پھول ہیں
تیرے رستے کی دھول ہیں
گویا آج ہم دوسروں کی اچھی باتیں بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔جو اچھی بات نہیں۔ہمیں دوسروں کی بات احترام سے سننی چاہیے۔اپنے لہجے اچھے اور کلمات خوب صورتی سے ادا کرنے چاہییں۔کامیابی تو اسی میں ہے۔گفتگو میں چاشنی،مٹھاس اور صداقت ہو۔غیبت سے اجتناب اور غصہ سے پرہیز کیا جاۓ۔خوش اخلاقی تو ایسا وصف ہے جس سے دلوں کو مسخر کیا جا سکتا ہے۔بقول شاعر:.
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جاۓ


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International