کالم نگار:سیدہ نزہت ایوب
شہر:اسلام آباد
خطہ ہند میں ایک سوچ کی لہر اٌبھری اِس لہر نے اور بہت سی لہروں میں ارتعاش پیدا کیا ۔
مختلف اذہان سے ابھرنے والی ان سوچ کی لہروں کا نظریہ ایک تھا ۔
اور وہ تھا “آزادی” انسان کی فطرت ہے متحرک رہنا ۔۔۔
کئی دہائیوں کی محنت رنگ لائی ۔
سبھی لہریں یکجاں ہوئیں ۔اذہان نے آزادی کی تجویز رکھی ۔
دلوں نے قبول کیا۔
یوں سامراجی نظام کے خلاف نظریے نے جنم لیا ۔
نفوس نے گرم جوشی، جنون سے اپنے نظریے کو منوا لیا ۔
بے شک قرارداد پاکستان اور نفاذ پاکستان و منتقلی تک خطے کے باشندوں نے بہت قربانیاں دیں۔
آج 70 سال بیت بھی چکے
خداداد اسلامی ریاست پاک سرزمین کو ۔۔۔۔۔
۔ماشاءاللہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو آزاد ہوئے 70 سال کا طویل عرصہ بیت چکا ۔۔۔۔۔
چند ہی سالوں بعد سو سال بیت جائیں گے ۔
(اتنے عرصے میں کیا کھویا کیا پایا )
مگر انتہائی دکھ اور کرب کی بات ہے کہ اداس نسلوں کے غموں کا بار سہتے سہتے تاریخ کی کمر جھکی پڑی ہے ۔
‘وقت’ کے ماتھے پر تفکر کی لکیریں آویزاں ہیں ۔
لب فریادی ہیں اور” یہ “حیرت سے نئی نسلوں کو بھی اداس نسلوں میں ہی ڈوبتے تک رہا ہے ۔
کہ پشت در پشت یہ نسلیں کیا کیے جا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ آہ
یہ وقت اور تاریخ کیا جانے کہ اس خطے کے باشندوں کی عادت بن چکی ہے۔ ملک کی نمائندں و حکمرانوں میں خطے کے محافظوں میں سو سو کیڑے نکالنے کی ۔۔۔۔
اور یہ جاتے جاتے جائے گی
کہ ہم ہی معصوم ہیں مظلوم ہیں۔
ان کی متحرک طبیعت اور ازلوں سے پڑی عادت انہیں مجبور کیئے رکھتی ہے کہ پاک سرزمین پر چین و ثبات سے بیٹھنا نہیں ۔۔۔۔۔
جس کا نتیجہ بدنما معاشرے کی تصویر ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وقت رنگ برنگے مارچوں کی تاریخ رقم کیئے جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔
Leave a Reply