rki.news
اگست کی صبح نے جب آسمان پر اپنے سبز اور سفید رنگ بکھیرے تو یوں لگا جیسے فضا خود جشنِ آزادی منا رہی ہو۔ ہوا میں ایک خاص سی تازگی تھی، روشنی میں ایک عجیب سا جادو، اور دلوں میں وطن سے محبت کا وہی پرانا ولولہ جاگ اٹھا تھا۔محترم خواجہ صاحب نے دوستی کی آواز لگاتے ہوئے سالانہ پول پارٹی کا اہتمام کر ڈالا….جس میں تمام دوستوں کو شرکت کی دعوت دی گئی….
یوں شہر کے مشہور بلو اوشن سوئمنگ پول پر وہ محفل سجائی گئی، جس میں قہقہوں نے پانی کی چھپاکوں کا ساتھ دیا، اور خوشیوں نے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا۔ دوستوں کی ہنسی، آزادی کے نعرے اور سبز پرچموں کی لہریں، ماحول کو ایک نئے جہاں میں لے گئیں.
یہ تقریب قطر سے ہمارے نہایت ہی عزیز دوست اور شہرہ آفاق شاعر رانا انور علی صاحب کے اعزاز میں بھی تھی….۔ان کی آمد ایک ہوا کے جھونکے کی مانند تھی جو گرمی میں ٹھنڈک اور اداسی میں خوشبو بھر دیتا ہے۔ اور پھر محترم خواجہ مظہر صدیقی صاحب تقریب میں داخل ہوئے۔جیسے ہی وہ شریکِ محفل ہوئے، یوں لگا جیسے واقعی تقریب کو چار چاند لگ گئے ہوں۔ ان کی شخصیت کا پرتو دوستوں کے چہروں پر خوشی کی روشنی بن کر جھلک رہا تھا۔ وہ صرف شریک نہیں تھے بلکہ اس محفل کی روح تھے، ایک ایسا چراغ جس نے قہقہوں اور خوشبوؤں کو اور زیادہ روشن کر دیا۔
سوئمنگ پول کی نیلی لہروں پر جب دوستوں نے چھلانگ لگائی تو پانی کی ہر بوند جیسے آزادی کی سرگوشی کر رہی تھی۔ قہقہوں کی گونج، خوشبو دار کھانوں کی مہک اور سبز پرچم کی لہریں ایک ایسی تصویر بنا رہی تھیں، جو دل کے کینوس پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو گئی۔
رانا انور علی صاحب کی دوستانہ طبیعت، ان کا بے تکلف انداز، اور ہر دلعزیز مسکراہٹ اور ان کی باکمال شاعری اس محفل کو ایک کہانی بنا گئے۔یہ کہانی محض ایک دن کی نہیں تھی بلکہ دوستی، یاری اور خلوص کی وہ داستان تھی جو آنے والے وقت میں بھی بار بار سنائی جائے گی۔
کھانے کے فوراً بعد سب نے اپنا اپنا تعارف کروایا اور پھر رانا انور علی صاحب نے اپنی شاعری سے بے قرار دلوں پر محبوب کی الفت کے وہ قصیدے پڑھے کہ سب عش عش کر اٹھے….بوقت رخصت ہر ایک کے دل میں یہی جذبہ تھا کہ یہ دن محض ایک پول پارٹی نہیں بلکہ زندگی کی ایک حسین یاد ہے، جو ہمیشہ تازہ رہے گی۔ اور اس تقریب کے مرکزی کردار سب شرکاء ہیں جنہوں نے اپنی موجودگی سے سب کو مسحور کیا
Leave a Reply