Today ePaper
Rahbar e Kisan International

*17 رمضان غزوۂ بدر، دنیا اسلام کی پہلی عظیم فتح*

Articles , Snippets , / Monday, March 17th, 2025

(تحریر: احسن انصاری)

غزوۂ بدر اسلام کی پہلی اور سب سے اہم جنگ تھی جو 17 رمضان 2 ہجری (624 عیسوی) کو مسلمانوں اور قریش کے درمیان ہوئی۔ یہ جنگ بدر کے مقام پر لڑی گئی، جو مدینہ سے تقریباً 80 میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ یہ حق و باطل کا پہلا معرکہ، اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا، جہاں ایمان اور حق کی فتح ہوئی اور ظلم و ستم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

جب نبی کریم ﷺ اور ان کے صحابہ نے 622 عیسوی میں مدینہ ہجرت کی تو قریش نے ان کے خلاف دشمنی میں مزید اضافہ کر دیا۔ مکہ میں برسوں تک مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے کے بعد قریش چاہتے تھے کہ مدینہ میں بڑھتی ہوئی اسلامی طاقت کو کمزور کر دیا جائے۔ دوسری طرف، مسلمانوں کو اپنے اقتصادی اور سیاسی استحکام کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت تھی۔

624 عیسوی میں، مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ ابو سفیان کی قیادت میں قریش کا ایک قافلہ شام سے تجارتی سامان لے کر مکہ جا رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس قافلے کو روکنے کا منصوبہ بنایا، کیونکہ قریش کا تجارتی مال ہی ان کی طاقت کا اصل ذریعہ تھا۔ لیکن ابو سفیان کو اس کی اطلاع مل گئی، اور اس نے مکہ میں مدد طلب کی۔ قریش نے فوری طور پر 1,000 جنگجوؤں پر مشتمل ایک لشکر تیار کر لیا تاکہ مسلمانوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔

مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی، جن میں کچھ نوجوان اور بوڑھے افراد بھی شامل تھے۔ ان کے پاس صرف دو گھوڑے اور 70 اونٹ تھے، جبکہ قریش کے پاس 100 گھوڑے اور 700 اونٹ تھے۔ اس کے باوجود، مسلمانوں کا ایمان مضبوط تھا اور وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مدد پر مکمل یقین رکھتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے جنگ سے پہلے صحابہ سے مشورہ کیا، جس پر مدینہ کے مسلمانوں (انصار) نے آپ ﷺ سے مکمل وفاداری کا عہد کیا۔ آپ ﷺ نے مسلمانوں کی فوج کو بدر کے کنووں کے قریب ایسی جگہ متعین کیا جہاں سے مسلمانوں کو پانی تک آسان رسائی حاصل ہو، جبکہ قریش کو پانی سے دور رکھا گیا۔

جنگ کا آغاز مبارزت یعنی انفرادی مقابلے سے ہوا، جو عرب میں عام روایت تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ، اور حضرت عبیدہ بن حارثؓ میدان میں اترے اور قریش کے نامور جنگجوؤں کو شکست دی۔ اس سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے۔ اس کے بعد باقاعدہ جنگ شروع ہوئی۔ مسلمان تعداد میں کم ہونے کے باوجود بہادری، حکمت اور اللہ کے سچے وعدے پر یقین رکھتے تھے۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: “بے شک، اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم کمزور تھے، پس اللہ سے ڈرو تاکہ تم شکر گزار بنو۔” (سورہ آل عمران: 123)

اسی طرح، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے نازل کیے، جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے: “جب تم نے اپنے رب سے مدد طلب کی، تو اس نے کہا: بے شک میں تمہاری مدد کے لیے ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آ رہے ہیں۔” (سورہ الانفال: 9)

حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ان مہاجر صحابہ میں شامل تھے جنہوں نے غزوۂ بدر میں بھرپور حصہ لیا اور دشمن کے خلاف بے مثال جرات کا مظاہرہ کیا۔ غزوۂ بدر میں کفار قریش کی جانب سے ان کے والد عبداللہ بن جراح میدان جنگ میں موجود تھے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت مخالفین میں سے تھے۔ جنگ کے دوران ان کا والد بار بار ان کا راستہ روکنے اور انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا، لیکن حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اسلام اور حق کی خاطر جذباتی وابستگی کو ترک کر دیا اور بنا تاخیر اپنے والد کو ایک لمحے میں قتل کر دیا۔

حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے اس معرکے میں دکھایا کہ ایمان ہر رشتے سے بالاتر ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دین کی سر بلندی کے لیے جنگ لڑی اور دشمنوں کو پیچھے دھکیل دیا۔

جنگ کے اختتام تک قریش کا لشکر شکست کھا چکا تھا۔ ان کے کئی بڑے سردار، جن میں ابو جہل بھی شامل تھا، مارے گئے، جبکہ باقی فوج بھاگ کھڑی ہوئی۔ یہ جنگ مسلمانوں کی تاریخی فتح ثابت ہوئی۔ مسلمانوں کے صرف 14 شہداء ہوئے، جبکہ قریش کے 70 آدمی قتل ہوئے اور 70 قیدی بنا لیے گئے۔

یہ فتح مسلمانوں کے حوصلے مزید بلند کرنے کا باعث بنی۔ اس جنگ نے ثابت کر دیا کہ ایمان اور حکمت کی طاقت بڑی سے بڑی فوج کو شکست دے سکتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی قیادت اور مدبرانہ حکمتِ عملی کو تسلیم کر لیا گیا۔ قریش کی طاقت کو شدید نقصان پہنچا اور یہ ان کے زوال کی ابتدا ثابت ہوئی۔ اس جنگ کے بعد مسلمانوں کو مدینہ میں مزید مضبوطی حاصل ہوئی، اور ان کی پوزیشن سیاسی اور عسکری لحاظ سے مستحکم ہو گئی۔

غزوۂ بدر نہ صرف ایک فوجی کامیابی تھی بلکہ ایک روحانی اور ایمانی فتح بھی تھی۔ اس جنگ نے یہ واضح کر دیا کہ اگر سچائی، صبر اور اللہ پر بھروسہ ہو تو کوئی بھی مشکل جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ یہ معرکہ آج بھی قربانی، استقامت اور اللہ پر مکمل بھروسے کی سب سے بڑی مثال ہے۔ مسلمان کمزور اور تعداد میں قلیل ہونے کے باوجود ایمان کی طاقت سے فتح یاب ہوئے، جو قیامت تک کے لیے ایک سبق ہے۔ یہ جنگ اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی فتوحات میں شمار ہوتی ہے اور ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے لیے امید، حوصلہ اور ہمت کی علامت بنی رہے گی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International