rki.news
“جیسے رہ جائے قفس کا در کھلا”۔
بگل ، باجے ڈیسک پیٹنے کے شور وغل کے درمیان ہمارے اندر کے مقرر کی دریافت}
جیسا پہلے بتاچکے ہیں نویں جماعت سے دسویں میں پہنچے تو سندھ بورڈ کے فیصلے کے تحت میٹرک گیارہ جماعت سے دسویں تک کا کردیا گیا تھا۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ ہم پِری میٹرک سے میٹرک کے طالب علم بن گئے ۔ دو سال کا کورس ایک سال میں مکمل کرنا تھا۔ ٹیوشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے نازہائی اسکول خیرپور میرس کے اساتذہ کی محنت، “مولا بخش” کی ٹھکائی اور اپنی پڑھائی رنگ لائی ہم نے 1962 میں سندھ بورڈ سے میٹرک پاس تو کرلیا لیکن تھرڈ ڈویژن میں۔ یہ بھی غنیمت تھا۔
اب سوال تھا کالج میں داخلے کا۔ سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ ذہین لڑکا ہے اسے ڈاکٹر بننا چاہیے۔ بچپن میں ہمیں کیڑے مکوڑے جمع کرنے کا شوق تھا۔ تتلیوں کے ساتھ بِھڑ بھی پکڑتے تھے۔ “ہیلی کاپٹر” میں دھاگہ باندھ کر اُڑاتے۔ ایک بار پیٹ کے درد کی دوا پینے سے کیچوا نکلا تو کئی بار چپکے چپکے اسے دیکھ بھی آئے۔ پتہ نہیں کیوں ہم خود کو ڈاکٹر سمجھنے لگے تھے۔ اپنے چھوٹوں کے ساتھ ڈاکٹر ڈاکٹر کھیلنے پر اماں سے جھاڑ بھی پڑچکی تھی۔ غرض ہمارا داخلہ کالج میں پری میڈیکل سال اول میں ہوگیا۔
کالج کا پہلا دن، اسکول کی خوف آلود فضا کے برعکس تھا۔ کلاسوں کے سامنے بڑا سا میدان ، سبزہ، درخت۔ جہاں دل چاہے بیٹھو ، کھڑے رہو۔ کلاس میں نہ جانے پر معمولی پُرسش۔ مولا بخش کسی گہرے کنویں کی نذر۔ امن ہی امن ، سکون ہی سکون، بہار ہی بہار:
“رقص میں یوں محو ہے مرغِ چمن
جیسے رہ جائے قفس کا در کھلا”
(ف ن خ)
پہلے اسکول کی تیاری اماں ڈانٹ ڈپٹ سے کروایا کرتی تھیں۔ ایک دن استری کیے کپڑے دو دن کبھی تین دن بھی چل جایا کرتے۔ البتہ اب اپنے اوپر خود توجہ دینا پڑتی تھی۔ کالج میں تعلیم جو مخلوط تھی۔ ہماری کلاس میں لڑکے لڑکیوں کی تعداد برابر ہی تھی۔ ہر ایک کی خواہش ہوا کرتی کہ خوب بن ٹھن کر آئے۔ لڑکوں میں بال بڑھانے کا بھی مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ البتہ ہمارے دل میں حسرت ہی رہتی۔ ابا کی جگہ بڑے بھیا ہر ماہ پابندی سے ہم چھوٹے بھایوں کو حجام کی دکان پر لے جاتے۔
کالج میں ہمیں داخلے کے چند روز بعد ہی ہمیں اندازہ ہوگیا کہ کلاس میں اسباق کی تیاری کے بغیر جانا ممکن نہیں۔ ہمارے سائنس کے پروفیسر اپنے مضامین کے ہفتہ واری ٹیسٹ لینے میں بہت سخت تھے۔
ہم سے بڑے تینوں بھائی بہن آرٹس کے طالب علم تھے ہم واحد ، جسے ڈاکٹر بننا تھا۔ چناچہ ہم صبح ساڑھے تین بجے اٹھتے، چار سے چھ، دو گھنٹے روزانہ پڑھا کرتے۔ پھر ہوا خوری اور شاعری۔
ہوا خوری کی عادت کیسے پڑی یہ بھی آج آپ کو بتاتے چلیں ۔ ہمارے وقتوں میں چھوٹے بچوں کے مکاتب کا نصاب مرتب کرنے والے بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ایسے اسباق اور منظومات منتخب کرتے جو کچے ذہنوں پر مثبت اثرات کے حامل ہوں۔مجھے ساتویں جماعت میں پڑھا ہوا ایک مقولہ آج بھی یاد ہے۔ “سحر خیزی نشانِ فیروزی است”۔مفہوم کا علم ہوتے ہوئے بھی میں سمجھتا تھا یہ میرے لیے کہا گیا۔ صبح اٹھنے کی عادت میں اس کا بڑا دخل رہا۔ اسی طرح ہوا خوری کا شوق ، مولانا محمد حسین آزاد کی اس نظم سے ہوا:
“سویرے جو کل آنکھ میری کھلی
عجب تھی بہار اور عجب سیر تھی
یہی جی میں آیا کہ گھر سے نکل
ٹہلتا ٹہلتا ذرا باغ چل”
روزانہ ہم گھر سے نکل کر فیض محل کے عقب میں میر واہ کنارے پودوں کی ایک بڑی نرسری تک جاتے۔ پھولوں کی پتیوں پر شبنم کے موتی، نم آلود پودوں سے مس ہوتے ہاتھ، سر کے بالوں اور چہرے سے ٹکراتی شاخوں سے جھڑتے اوس کے قطرے جسم و روح کو جو فرحت بخشتے اس کا نعم البدل کہیں نہیں تھا۔
کالج میں ہمارے منجھلے بھائی اور بڑی آپا بھی ایک جماعت آگے تھے۔ خیرپور میرس میں پرانی روایات اس وقت تک برقرار تھیں۔ مخلوط تعلیم کے باوجود لڑکے لڑکیاں بلا ضرورت آپس میں بات چیت نہیں کرتے تھے۔احترام الفاظ کے ساتھ نگاہوں میں بھی ہوتا تھا۔ گرلز کامن روم کے دروازے پر چق پڑی ہوتی تھی۔
ہمارے تمام پروفیسر بہت اچھے تھے ۔ اردو کے پروفیسر تو ہمیں بہت پسند کرنے لگے تھے۔ انہیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ ہم شعر و شاعری سے شغف رکھتے ہیں۔ خیرپور چھوٹا سا شہر لیکن شعر و ادب کے لحاظ سے نمایاں تھا۔ پھر ہمارے والد حضرت ناطق بدایونی، معروف ادیب شاعر، محکمہ اطلاعات سے تعلق۔
اس وقت خیرپور ممتاز کالج میں پرنسپل آصف جاہ کاروانی، پروفیسر عطا محمد حامی ، مفتی عنایت علی شاہ ، پروفیسر منظر ایوبی، پروفیسر عبداللہ جاوید ، ڈاکٹر احمر رفاعی اور ہمارے اردو کے پروفیسر عنایت علی خاں جیسے قابل ماہرِ تعلیم تھے۔
ہمارا انٹر کالج شہر سے کئی کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ عنایت صاحب اور ہم چند طالب علم کالج کے بعد شہر کی طرف پیدل ہی جاتے راستے میں بھی عنایت صاحب ہمیں اردو ادب کے حوالے معلومات فراہم کرتے تھے یوں وقت اور فاصلہ کٹ جاتا۔ ایک روز عنایت صاحب نے کلاس میں اعلان کیا کہ ہر جمعہ کو چھٹی کے بعد کالج کے ہال میں تقریری مقابلے ہوا کریں گے۔ اور آج فرسٹ ائر سائنس پری میڈیکل سے فیروز ناطق حصہ لیں گے۔ عنایت صاحب بھی ہمیں بہت باصلاحیت طالب علم سمجھتے تھے۔ مقابلے کا عنوان اسی وقت دے دیا گیا۔ آدھا گھنٹہ تیاری کو ملا۔ اس پہلے تقریر کرنے کے بارے میں کبھی سوچا تک نہ تھا۔ ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے بعد میں پتہ چلا گلا بھی پھول گیا تھا۔
وقت مقررہ پر کالج کے تمام طلباء طالبات، اسٹاف ہال میں موجود تھا۔ تقریری مقابلے میں حصہ لینے والے اسٹیج پر کرسیوں پر براجمان تھے۔ مقرر آتے جاتے گئے ہم اپنی تقریر رٹنے میں مشغول تھے کہ ہمارا نام پکارا گیا۔ تالیوں کی گونج میں ہم آگے آگئے۔ روسٹرم بھی نہیں تھا نہ کوئی ڈیسک، کرسی سہارے کے لیے۔ ہمیں بس اتنا یاد تھا کہ ہمارے منہ سے بے ترتیب جملے نکل رہے تھے۔ آواز لرز رہی تھی، ٹانگیں کانپ رہی تھیں بقول کسی کے “کانپیں ٹانگ” رہی تھیں ، گھٹنے آپس میں ٹکرارہے تھے اور ہال فلک شگاف نعروں، بے معنی آوازوں اور ڈیسک پیٹنے کے شور سے گونج رہا تھا۔ ہوٹنگ کا اس سے پہلے اتنا منظم مظاہرہ نظر سے نہیں گزرا تھا۔
جیسے تیسے ہم نے وہاں سے جان چھڑائی سیدھے گھر پہنچ کر دم لیا۔ بڑی آپا اور منجھلے بھائی نے خوب خبر لی۔ کس پاگل کتے نے تمہیں کاٹا تھا جو بھونکنے کھڑے ہوگئے۔ یہ تھا وہ خوبصورت جملہ جو ہماری شان میں ادا کیا گیا۔ آپا بڑے غصے میں تھیں انہیں اپنی سہیلیوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا جو کرنا پڑا۔
اگلے روز کالج جانا بڑا مرحلہ تھا۔ ہمیں سب کی تمسخرانا مسکراہٹوں اور جملوں کا سامنا تھا۔ عنایت صاحب نے ہماری بہت حوصلہ افزائی کی۔ اگلے مقابلے کا عنوان بھی ہفتہ پہلے دے دیا۔ ہم کلاس میں ہر پروفیسر کے پیچھے پیچھے داخل ہوتے اور سب سے پہلے باہر نکلتے۔ پورے ہفتے ہمارا یہی معمول رہا۔، شرمندگی کے باعث۔
اگلے تقریری مقابلے کا دن بھی آگیا۔ بڑی آپا نے سختی سے منع کیا ہوا تھا حصہ لینے کو اور ہم نے بھی بظاہر حامی بھر لی تھی۔ آپا بڑے سکون سے اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہال میں موجود تھیں جب ہم چپکے سے آخر میں اسٹیج پر آکر بیٹھ گئے یقینا” اس وقت آپا کا غصے سے برا حال ہوگا۔ ہم اس بار پوری تیاری سے آئے تھے۔ روسٹرم بھی رکھولیا تھا۔ ہمارے نام کا اعلان ہونا تھا کہ اس بار شروع ہی میں سیٹیوں، ڈیسک پیٹنے کی آوازوں اور ہوٹنگ کے جملوں سے ہال گونجنے لگا۔ ہم چند لمحے خاموش رہے پھر بڑے اعتماد کے ساتھ، صاحبِ صدر، محترم اساتذہ اور عزیز ساتھیو کا جملہ ادا کیا۔ شور ایک دم تھم گیا ہم نے اپنی تقریر جاری رکھی۔ عنوان کے حق میں دلائل دیے، ساتھ ہی منتخب اشعار۔ سب خاموشی سے ہماری تقریر سن رہے تھے۔ تقریر ختم ہوتے ہی اس بار پھر ہال میں شور و غل مچ گیا لیکن یہ شور تحسین آمیز جملوں اور تالیوں کی گونج کا تھا۔ ہماری آنکھیں مالکِ لوح و قلم کے کرم سے نم آلود تھیں۔ گھر پہنچ کر آپا اور منجھلے بھائی نے بھی بہت تعریف کی۔
دوسرے روز ہم کلاس میں سب سے پہلے داخل ہوئے۔ اپنے ساتھیوں سے مبارکبادیں وصول جو کرنا تھیں۔ ہمارا دل چاہتا تھا کہ پورا کالج ہماری تعریف کرے ۔ اسی دھن میں ہم گرلز کامن روم کے سامنے سے بھی گزرے۔ جب تیسرا چکر اس طرف سے ہوا تو بڑی آپا چق ہٹا کر باہر نکل آئیں اور بڑے غصے سے پوچھنے لگیں کیا تکلیف ہے تمہیں، بار بار یہاں سامنے سے کیوں گزر رہے ہو۔ ہم سر جھکائے خاموشی سے کلاس میں آکر بیٹھ گئے۔ خود نمائی کا بھوت سر سے اتر چکا تھا۔
اس دن کے بعد ہم مستند مقرر قرار پائے۔ بعد میں آنے والے دنوں میں ہم نے اپنے کالج اور دہگر کالجوں کے تقریری مقابلوں میں متعدد انعامات حاصل کیے۔اس میں ہمارے اردو کے پروفیسر ، ممتاز مزاح گو عنایت علی خاں کی تربیت کا بڑا دخل تھا۔ ہمارے کالج کے دیگر مقرروں میں مظفر عالم، فردوس عالم ، میرے منجھلے بھائی آصف پاشا بھی امتیازی حیثیت رکھتے تھے۔ (جاری ہے)
Leave a Reply