rki.news
میں ملک دو لخت ہوگیا۔ آج تک وہ صدمہ بھلائے نہیں بھولتا۔ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن کہنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں، اس وقت کہی گئی یہ نظم پڑھ لیجیے:
“سقوطِ مشرقی پاکستان “
ہر نوا بے اثر
ہر صدا بے اثر
دائرے
سوچ کے زاویے
صوت و آہنگ کا زیر و بم
رائیگاں ہو چلا
ہر فسوں سو چلا!
کند ہیں ذہن
اعصاب مفلوج ہیں!
کیا کہیں
کیا سنیں
کہنے سننے کو اب کیا رہا دوستو !
یاس کی دھند
چہروں کو ڈسنے لگی
زندگی قہقہوں کو ترسنے لگی!
ہر نظر آج دھندلا گئی
اپنی تقدیر کہنا گئی
پھول سے لب ورخسار کملا گئے
شدتِ کرب سے نقش پتھرا گئے !
ہونٹ خاموش ہیں
ہر زباں گنگ ہے
ہر نفس خار ہے!
ہر نظر آج تلوار کی دھار ہے!
دامنِ ہر مژه
دشت آثار ہے!
خشک آنکھوں میں ہیں
غم کی پر چھائیاں !
رقص کرتی ہوئی کچھ پچھل پائیاں !
جوت آنکھوں کی اب بجھ گئی دوستو !
تیرگی کیا مقدر ہوئی دوستو ؟
(ف ن خ)
ایک نوجوان پاکستانی کی حیثیت سے سقوطِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے 1971 میں کہی نظم کی صورت میرا فوری ردِ عمل آپ نے دیکھ ہی لیا۔ اب 54 سال بعد غزل کے یہ تین شعر بھی ملاحظہ فرمالیجے:
پیدا میں ہوا ملک کی تقسیم سے پہلے
دولخت ہوا دوسری تقسیم سے پہلے
۔۔۔۔۔۔
گر یونہیں ہوتی رہیں دل بیچ دیواریں بلند
بھائیوں کے بیچ یہ دیوار و در کٹ جائیں گے
ملک کی تقسیم سے اے دل سبق لے ورنہ کل
موریوں سے خوں بہے گا گھر گے گھر کٹ جائیں
(فیروز ناطق خسروؔ) جاری ہے
Leave a Reply