(تحریر: احسن انصاری)
ہر سال پاکستان اور دنیا بھر میں 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ دن ہمیں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم اور کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کی یاد دلاتا ہے۔ مسئلہ کشمیر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت شروع ہوا، جب بھارت اور پاکستان کے دو خودمختار ممالک وجود میں آئے۔ مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کی توقع تھی کہ وہ پاکستان سے الحاق کرے گی، مگر اس وقت کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کا متنازعہ فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں پاک-بھارت جنگ چھڑ گئی۔ 1949 میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 47 کے تحت کشمیری عوام کو استصوابِ رائے کا حق دیا گیا، مگر بھارت نے آج تک اس پر عمل نہیں کیا۔ 1989 میں بھارتی قابض افواج کے مظالم میں بے پناہ اضافہ ہوا، جس کے بعد کشمیری عوام نے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں اپنی جدوجہد کو مزید تیز کر دیا۔ اس تحریک کو دبانے کے لیے بھارت نے شدید ریاستی دہشت گردی کا سہارا لیا، جس کے نتیجے میں ابتک 95,000 کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ 8,000 افراد جبری گمشدگی کا شکار ہوئے۔ تقریباً 12,000 خواتین کی عصمت دری بھارتی فوج کے ہاتھوں رپورٹ کی گئی۔ کئی لاکھ بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ ہزاروں افراد پیلٹ گنز کے استعمال سے بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ہزار اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔
1990 میں حکومتِ پاکستان نے 5 فروری کو سرکاری سطح پر “یومِ یکجہتی کشمیر” کے طور پر منانے کا اعلان کیا، تاکہ کشمیری عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا جا سکے اور عالمی سطح پر ان کے مصائب کو اجاگر کیا جا سکے۔ 1990 میں بھارت نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (AFSPA) نافذ کیا، جس نے بھارتی فوج کو کشمیریوں کے خلاف بے پناہ اختیارات دے دیے۔ ہر سال 5 فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں لوگ احتجاجی مظاہرے اور انسانی زنجیریں بنائی جاتی ہیں، خاص طور پر کوہالہ پل پر، جو پاکستان اور آزاد کشمیر کو جوڑتا ہے۔ سیمینارز اور کانفرنسز منعقد کیے جاتے ہیں، جہاں سیاستدان، ماہرین، اور طلبہ کشمیری عوام کے مسائل اور ان کے ممکنہ حل پر آواز بلند کرتے ہیں پاکستانی میڈیا خصوصی پروگرام، مضامین، اور ڈاکومنٹریز کے زریعے دنیا بھر میں کشمیری عوام پر ہونے مظالم کی آواز بلند کرتا رہا ہے۔ کشمیری شہداء کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
اگست 2019 میں بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35A ختم کرکے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ اس اقدام کے نتیجے میں لاکھوں کشمیری کرفیو اور لاک ڈاؤن کی زد میں آگئے۔انٹرنیٹ اور مواصلاتی نظام مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقوں میں 700,000 سے زائد بھارتی فوجیوں کو تعینات سے کشمیر کو دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ بنا دیا۔ علاقے میں نافذ کرفیو سے عوام کو نقل و حمل میں شدید دشواری کا سامنا ہے ۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادیں کشمیری عوام کو استصوابِ رائے کا حق دیتی ہیں، مگر بھارت نے ہمیشہ ان پر عمل درآمد سے انکار کیا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، ہیومن رائٹس واچ نے بھارتی فوج کی سنگین خلاف ورزیوں کو رپورٹ کیا ہے، جن میں اجتماعی قتل, جبری گرفتاریاں، عصمت دری، تشدد، پیلٹ گنز کے ذریعے مظاہرین کو نشانہ بنانا۔ او آئی سی (OIC) نے بھی بھارت کے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ، او آئی سی، اور انسانی حقوق کونسل جیسے پلیٹ فارمز پر کشمیری عوام کے حقوق کی حمایت کی ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی “شہ رگ” قرار دیا اور ہمیشہ کشمیر کی آزادی کے حق میں مؤقف اختیار کیا۔ پاکستان، بھارت، اور کشمیری قیادت کے درمیان مذاکرات کیے جائیں۔ اقوامِ متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ عالمی برادری بھارتی فوج کے مظالم کو روکے۔ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر اپنی سفارتی کوششیں مزید تیز کرنی ہوں گی۔ یوم یکجہتی کشمیر محض ایک رسمی دن نہیں بلکہ کشمیری عوام کی آزادی کی جدوجہد میں پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کی علامت ہے۔ یہ دن دنیا کو یاد دلاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر اب بھی حل طلب ہے اور لاکھوں کشمیری ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا جب تک کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک منصفانہ اور پرامن حل حاصل نہیں ہو جاتا۔
Leave a Reply