تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

چاپلوسی کی اس نے حد کر دی

Articles , Snippets , / Wednesday, August 21st, 2024

اس میں کوئی شک و شبے والی بات نہیں ہے کہ ہم اپنے دو آنے کے ذاتی فایدے کے لیے دوسرے کا لاکھوں کا نقصان کر دیتے ہیں. نظر دوڑا کے ارد گرد دیکھ لیجیے ہماری اسی کمینی عادت نے ہمیں اوج ثریا سے ذلت کی پستیوں میں لا پھینکا اور ہم کاکے شاکے بن کے بونگیاں مارتے پھرتے ہیں کہ کیا ہوا؟ کیا ہوا؟ کیا ہوا؟ ہمارا ملک بہت برا ہے لوگ بہت برے ہیں محکمے برے ہیں، حکمران برے ہیں. سچ تو یہ ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، کسی بھی شے کی کوی بھی کل سیدھی نہیں ہے. ہم غلام ذہنیت کے غلام ابن غلام
لوگ پہلی سانس سے آخری سانس تک رہتے غلام ہی ہیں غلامی کا طوق ہمارے پیروں کی زنجیر بنا ہی رہتا ہے ہمارے خواب اور ان زنجیروں کی جنگ میں تصادم ہمیشہ ہی خون رنگ رہا ہے میرا ہی ایک شعر دیکھیے کہ
بند آنکھوں میں میرے خوابوں کا تو شور تو سن
زخمی پیروں سے یہ زنجیر ہلا دیتے ہیں
ننھی ماہا ایک بڑے آرمی آفیسر کی بیٹی تھی اس کی والدہ وفاقی وزیر تھیں گھر کا ماحول ضرورت سے زیادہ chill تھا ماہا مرضی سے سکول جاتی تھی ہاں ایک کمال تھا ایلیٹ کلاس کی یہ بچی ہر جماعت میں بغیر پڑھے ہی فرسٹ آ جاتی ہے اور اس جماعت میں پڑھنے والی تمام لڑکیاں تو ہو گییں ناں نکمی اور نالائق جتنا مرضی پڑھ لیں جتنی مرضی محنت کر لیں پہلی پوزیشن ماہا ہی کی ہے کیونکہ ماہا کے والدین اس سکول کے مای باپ ہیں جہاں ماہا کا نام رجسٹرڈ ہے.
ملک میں ہونے والے تمام انتخابات کا ریکارڈ نکال کے دیکھ لیجیے بریانی کی پلیٹ پہ بک جانے والی عوام بھلا اپنے ملک کی فلاح و بہبود کے لیے اچھے حکمران کیسے چن پاے گی.
ویسے تو اس بندر بانٹ کا سلسلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا مگر ہر گزرتے پل کے ساتھ اس قبضہ مافیا کی شدت میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہم نے تو ایسے ایسے لوگوں کو عہدوں پہ حکمرانی کرتے دیکھا جن کی اوقات فٹ پاتھ کے sweaper سے زیادہ کی نہ تھی بے جا سفارشات، favouritism, نے ملک پہ نکمے، ناعاقبت اندیش اور جاہل لوگوں کے ایک مافیا کو ملک پہ مسلط کر دیا اور فی الحال اس قبضہ گروپ اس مافیا سے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی. چند جانے پہچانے چہرے ہیں، خاندان ہیں جو باریاں بدل بدل کے اپنے تخت شہنشاہی کے مزے لیتے ہیں اپنے بنک بیلنس اور جایداوں میں بے پناہ اضافہ کرتے ہیں اپنے رشتہ داروں اور رشتہ داروں کے رشتہ داروں کو عہدوں اور وزارتوں سے نوازتے ہوے ملک کی فاقہ زدہ عوام سے بے شمار ٹیکسوں کی مد میں بھیک مانگ کر غریبوں کی سچے دل سے کی گءی بد دعاووں کے خواہ مخواہ میں ہی حقدار بن جاتے ہیں کتنے بد نصیب ہوتے ہیں ناں یہ شہنشاہ بھی
بخت کے تخت پہ ہارے ہوئے لوگ
جو جس عہدے پہ براجمان ہے وہ مرنے سے پہلے اس عہدے پہ اپنے لواحقین کو ضرور اڑا دیتا ہے لوگ کہتے ہیں دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے میں کہتی ہوں جتنا انسان آج کے دور میں گروہ بندیوں اور گروپ بندیوں کا شکار ہے اتنا پہلے کبھی بھی نہ تھا.
اور اب تو ان گروہ بندیوں نے ادبی دنیا میں بھی اپنی دھاک بٹھا دی ہے ایوارڈز، شیلڈز، گروپس میں ہی رہ جاتے ہیں کوی ایک جوڑے پہ بک جاتا ہے تو کوی چند روپوں کے عوض ایک اندھی دوڑ ہے جس نے ہر کس و ناکس کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور موسمی مینڈک اس خواہ مخواہ کی برسات میں ٹر ٹراتے ہھرتے ہیں اور مینڈکوں کی دیکھا دیکھی مینڈکیوں کو بھی زکام ہو نے لگا ہے حق تلفی حسب معمول سنجیدگی سے کام کرنے والوں کی ہے چاپلوس، خوشامدی، اور نذر نذرانے دیے کے آگے والوں کے لیے تو عہدے، ایوارڈز اور شیلڈز ہمیشہ ہی سے بانٹی جاتی رہی ہیں.
اپنے کام سے کام رکھنے والے تمام سنجیدہ لوگوں کو سلام
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International