(مؤلف:عبد الرحیم بھٹی صاحب) تحریر۔عظیم ناشاد اعوان
محترم جناب عبد الرحیم بھٹی یکم فروری1967 میں موضع حطار تحصیل خان پور ضلع ہری پور میں ایک زمیندار گھرانے میں کالا خان بھٹی کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ بھٹی راجپوت خاندان کے کے چشم و چراغ ہیں۔راجپوت قبیلے کی ذیلی شاخ حطار المعروف نیکیال قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد 13مئی1985ء کو گورنمنٹ پرائمری سکو ل میرا شہنی سنٹر کوٹ نجیب اللہ میں بطور مدرس تقرر ہوا۔ بی /اے،بی/ایڈ اور ایم /اے اسلامیات کی ڈگریاں بطور پرائیویٹ امیدوار پشاور یونیورسٹی سے حاصل کیں۔ جبکہ ایم /ایڈ کی ڈگری علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے حاصل کی۔11نومبر1994ء کو PTCسے CTپوسٹ پر گریڈ B.14میں ترقی ملی۔2013ء سے 30دسمبر2016ء تک ہائی سکول حطار میں بڑھایا اور 30دسمبر2016ء کو ہی خرابی صحت کی وجہ سے بتیس سال اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے بعد پچاس سال کی عمر میں قبل از وقت اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے۔
2014ء میں فریضہ حج ادا کیا۔تاریخ کا ذوق و شوق جنون کی حد تک ہے۔اپنے خاندان و قبیلے پر 1997ء میں ایک کتاب کے لکھنے کا عزم مصمم کیا۔آپ کی کتاب ”بھٹی راجپوت قبائل“ تقریبا 1600صفحات پر مشتمل ہے اور دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔تاریخ ،تحقیق ایک مشکل فن ہے۔ تحقیق کا مطلب ہے علم کی تلاش کرنا۔تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی سچائی ثابت کرنا،کھرے کھوٹے کی پہچان کرانا اور حقیقت کا ادراک کرنا ہیں۔انگریزی میں تحقیق کے لیے ریسرچ(Research)کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ تحقیق کے لغوی معنی کسی شے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ تحقیق سے انسان کے علم میں نہ صرف اضافہ ہوتا ہے بلکہ نئے نظریات قائم ہوتے ہیں۔تحقیق میں جانی اور مالی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔بقول شاعر
ہزاروں سختیاں سنگ مزاحم بن کے آتی ہیں
مگر مردان حق اس بات کی پروا نہیں کرتے
تاریخ بھٹی راجپوت کے مؤلف
شہزادہ آزاد سمبڑیالوی نے صفحہ نمبر 35پر لکھا ہے کہ راجہ بلند(سات بیٹے تھے) کے بیٹے بھٹی کی تمام اولاد بھٹی گوت سے مشہور ہوئی۔مہاراج سری کشن جی کی دسویں پشت پر راجہ بلند ہوئے۔جس کے بیٹے کانام بھاٹی (بھٹی) تھا۔اس طرح حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کے بیٹے اشور سے چلنے والی یہ نسل پہلے چندر بنسی پھر جادوپھر شور سینی پھر جادو کی نسل سری کرشن اور سری کرشن کی نسل سے راجہ بھاٹی(بھٹی) ہوا۔اور اسی مشہور راجہ بھٹی کے نام سے اس کی نسل راجپوت بھٹی کہلانے لگی۔
ہزارہ ڈویژن کے جن قبائل کی تاریخ پر کام ہوا ہے اس میں جدون،سواتی، اعوان،سادات، گجر، طاہر خیلی،کرڑال،ترک،مانکیال اکوزئی یوسفزئی،مدے خیل،یوسف زئی،مشوانی،گکھڑ اور تنولی قبائل سرفہرست ہیں۔راجپوت قبیلہ پر ابھی تک کوئی تاریخی کتاب منظر عام پر نہیں آئی۔عبد الرحیم بھٹی صاحب ہزارہ سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے بھٹی راجپوت قبائل کی تاریخ لکھ کر ایک احسن قدم اُٹھایا ہے۔ موصوف کی محنت،جذبہ اورقربانیوں پر داد دینی ہو گئی کہ مادیت پرستی کے اس دور میں کچھ لوگ دولت کی تلاش میں سرگرداں ہیں جبکہ موصوف علم وادب اور انسانیت کی فلاح کے لیے پیش پیش ہیں۔
اس کتاب کی تخلق کوئی راتو رات نہیں ہوئی بلکہ عبد الرحیم بھٹی نے اپنی زندگی کے قیمتی 25 سال اس کتاب کا مواد جمع کرنے میں صرف کر دیے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
زندگی شمع کی ماند جلاتا ہوں ندیم
بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا
انٹر نیشنل ادبی رائیٹر فورم نے گذشتہ سال آپ کو ادبی خدمات کے عوض اکادمی ادبیات میں ایوارڈسے نوازا گیا۔عبدالرحیم بھٹی صاحب بھٹی قبیلہ کے محسن ہیں۔یہ کتاب آپ کے نام کو زندہ رکھے گئی۔جو کام بڑی بڑی تنظیمیں اور پبلشرز کرتے ہیں وہ کام موصوف نے تن تنہا کیا ہے۔آپ کی کاوشوں کی داد دینی چاہیے۔یہ بھٹی راجپوت قبیلہ کی تاریخ نہیں بلکہ انسائیکلو پیڈیا ہے۔اشاعت کے بعدیہ کتاب ہر صاحب علم کی لائبریری میں ہونی چاہیے۔آئندہ نسلوں کے لیے یہ کتاب دستاویز ثابت ہو گئی۔عبدالرحیم بھٹی صاحب کی ہمت اورکاوشوں کو سلام۔۔۔اللہ کرے زو ر قلم اور زیادہ…………
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
مردان سحر کی کبھی ہوتی ہی نہیں شام
ملک عظیم ناشاد اعوان ہڑیالہ مانسہرہ
(صدر بزم مصنفین ہزارہ،چیف آرگنائزر ادارہ تحقیق الاعوان پاکستان)
Leave a Reply