انی اخبار
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح وشام تُو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
رشید قریشی عالمی جنگ اول کے آخری دنوں سے کچھ عرصہ قبل جموں (توی) میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے، والد اور دادا برٹش فوج میں منسلک تھے۔ ایک سال کے ہوئے تو باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا، یوں کہہ لیجئے کہ یتیمی میں آنکھ کھولی۔ بچپن اپنی عظیم والدہ کی گود میں گزارا۔ والدہ مرحومہ نے اپنی جوانی قربان کر کے بڑی بہن اور رشید قریشی کو یتیمی کا احساس ہونے نہیں دیا۔ والدہ کی بڑی خواہش کے تھی کہ انکا بیٹا اعلی تعلیم حاصل کرے۔ پرائمری کی تعلیم جموں سے پاس کرنے کے بعد اپنے ماموں کے پاس پُونچھ چلے گے وہاں سے JV گورنمنٹ ہائی اسکول سے 1931 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ پرنس آف ویل کالج جموں سے ایف اے پاس کرنے کے بعد شادی کے بندھن میں باندھ دیا گیا۔ شادی کے بعد بھی پڑھائی کا سلسلہ جاری رہا اور انہوں نے سری پرتاب سنگھ کالج سری نگرسے بےاے، بی ایڈ کرنے کے بعد سری رنبیر سنگھ ہائی سکول جموں میں دسویں جماعت کے کلاس ٹیچر کی حیثیت اپنا تعلیمی کیریئر شروع کیا۔ کچھ سال پڑھانے کے بعد محکمہ تعلیم جموں ریجن میں انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر کام کرتے رہے۔ 1946 میں ٹیچرز ٹریننگ کالج جموں بطور لیکچرار تعیناتی ہوگئی۔ 1947 میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لئے اپنی ہمشیرہ کے پاس میرپور گئے ہوئے تھے۔ چھٹیوں کے دوران ملک کا بٹوارہ ہو گیا۔ عارضی طور پر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ جہلم میں قیام کیا بعد ازاں سیالکوٹ میں سکونت اختیار کر لی اس امید کے ساتھ کے جلد ہی حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو اپنے وطن جموں کشمیر واپس چلے جائیں گے۔ سیالکوٹ میں شروع میں آرمی کانونٹ سکول میں بحثیت استاد کام کیا مگر بعد میں صحافت کے شعبے کو اپنا لیا، اور سال 1949 میں پہلے تعلیمی جریدے ”نظامِ تعلیم”کا اجرا کیا، جس کی اشاعت آزاد کشمیر اور پنجاب کے تمام اسکولوں کے لئے تھی، اس جریدے میں اساتذہ کو پڑھانے کے جدید طریقے سیکھائے جاتے تھے، یہ 1977 تک چلتا رہا۔ جرنل ایوب خان کے دور میں 1956 کو ہفت روزہ اخبار ”رہبر کسان” کا اجرا کیا جو سال 1982 تک ان کی ریٹائرمنٹ تک چلتا رہا۔ تمام عمر علم اور تدریس کے شبعہ کے ساتھ منسلک رہے، پاکستان بننے سے پہلے چند کتابوں کے مصنف بھی تھے جنہیں امرتسر کے ایک نامور پبلیشر نے شائع کیا جن میں آدمی اور ریل گاڑی بھی شامل تھیں۔ رشید قریشی کا ماننا تھا کہ وہ اپنی والدہ کے ویژن کی وجہ سے یہاں تک پہنچے۔ وہ ہمیشہ دعا دیتی تھیں کہ تمہارے سات بیٹے ہوں گے۔ اللہ تعالی نے کرم کیا اور سات ہی بیٹے ہوئے! کاروبار سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے امریکا اور یورپ کے مختلف ممالک سعودی عرب اور قطر کے متعدد دورے کئے۔ وہ 19 نومبر 2001 کو کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد اپنے حالق حقیقی سے جا ملے۔ حسن اتفاق یہ ہے کہ ان کی اہلیہ کی رحلت بھی 19 نومبر (1983) کو ہی ہوئی تھی
Leave a Reply