تازہ ترین / Latest
  Friday, October 18th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

خوابوں کا سوداگر۔۔۔۔۔عابد حسین عابدؔ

Articles , Snippets , / Thursday, September 5th, 2024

مرادعلی شاہدؔدوحہ قطر
فرانسیسی شاعر والٹئیر کہتا ہے کہ ”شاعری جو انسان کو نئی اور متحرک سچائیوں کی تعلیم نہیں دیتی وہ اس قابل نہیں کہ اسے پڑھا جائے“۔یہ شاعر بھی عجب شخص ہوتا ہے معاشرہ کی مہیب بدصورتیوں کا احاطہ کرنے والا ایسا مصور جس کی شعری رنگوں سے وہ تصویر نکھر کر سامنے آتی ہے کہ ارژنگ کا نگار خانہ بھی شرما جائے۔میں تو ایسے شخص کو شاعرہی تسلیم نہیں کرتا جس کی آنکھ میں زمانہ اور ہاتھ میں چاک نہ ہو۔اپنی آنکھ سے زمانہ کی ناہمواریوں،زیادتیوں،ناانصافیوں،شب وستم کو دیکھتا ہے تو مصرعوں کو اپنے ضمیر کے چاک پر رکھ کر ایسے ایسے صنم بنا ڈالتا ہے کہ سومنات بھی شرما جائے۔وہ الفاظ،تشبیہ و استعارات اور تخیل کی بلند پروازی کو سوچ،فکر اورضمیر کی مٹی سے گوندھتے ہوئے ایسے ایسے دیدہ زیب شاہکارتیار کرتا ہے کہ اگر اسے کسی گل اندام کے ہاتھ میں تھما دیا جائے تو سوہنی،سسی،عذرا،ہیرجیسے کرداروں کو لافانی استعارہ عشق و وفا کی تمثیل بنا دے۔
ایک ایسے ہی سحرالبیان شاعر دوست سے پچھلے دنوں ملاقات میں جب انہوں نے مجھے اپنی کتاب”رات کے حصار“میں پیش کی تو پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ ہاں ابھی کچھ لوگ زندہ ہیں جو انسانوں کو زندہ رہنے کا شعور دینے کی سعی میں زندہ ہیں۔برقی رابطہ بالمشافہ ملاقات کا سبب بنا تو پتہ چلا کہ عابد حسین عابدؔ محض ترقی پسند شاعریا ترقی پسند تحریک کو فعال بنانے والے فرد ہی نہیں بلکہ اپنی ذات میں انجمن اور مزاحمت کا استعارہ ہیں۔کھیل،سیاست اور ادب کا وہ پیادہ جسے حکومتی فیل و رخش اور سرکاری عنایات کے میسر مواقع کے باوجود احساس تھا کہ انہیں اپنے جیسے پا پیادہ انسانوں میں زندگی بسر کرنی ہے۔ایک عام پرولتاری بن کر جبرواستبداد،معاشی عدم مساوات،سرمایہ داروں کے بورژوائی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہے۔عابدؔ نے اپنے مافی الضمیرکو بیان کرنے میں جب سیاسی سٹیج کم پڑتا دکھائی دیا توسحرالبیان شاعری کو عوام کے دلوں کو مسخر کرنے کا ذریعہ بنایا۔
عابدؔچشم شعور وا ہوتے ہی اپنے ارد گرد معاشرتی روائتوں کو جب حقیقت میں نہ دیکھ پایا کہ جن کے ہم امین تھے یا والدین نے ان کے شعوری ادراک کا خاصہ بنایا تھا تو انہوں نے روائتوں کے انحراف کا پرچم بلند کردیا جسے عابدؔ اپنے آہنی ہاتھوں سے آج بھی بلند کئے ہوئے ہے۔اور اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے میں اسے کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوتا۔وہ بلا جھجک تیسری دنیا کے محکوم عوام کی حالت زار اور حاکمان وطن کی عیاشیوں کو دیکھتے ہوئے have nots کے ہر اُس پرولتاری کے ذہن میں سوال ضرور پیدا کرتے ہیں کہ اٹھو اب سوال کرو یہ آپ کا حق ہے۔
ہم نے ذہنوں میں سوالات ابھارے عابدؔ
ہم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں گرایا پتھر
مرے وطن کے غریب لوگوں!
کبھی تو پوچھو یہ رہبروں سے
اگر تمہارے تمام نعرے
تمام وعدے،تمام دعوے
درست ہیں تو
وطن میں برپا ایک دوجے سے
نفرتوں کی یہ جنگ کیا ہے؟
یہ بھوک کیا ہے؟
یہ ننگ کیا ہے؟
عابدؔعصر حاضر کے عصری شعورکے ٓئینہ دار ایسے شاعر ہیں جوادراک و آگہی کا چراغ اٹھائے ہر سو روشنی کا پیامبر بنے معاشرہ کو سماجی شعور سے ہمکنار کرنے میں اپنے لیل ونہار ایک کئے ہوئے ہے۔وہ آج سے نہیں اس عمرسے لکھ رہے ہیں جب لوگ پڑھتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ پڑھنے کے دنوں میں لکھنے کا عمل کیسے سیکھ لیا تو جواب حاضر کہ وہبی شعرا پر خدا کا کرمِ خاص اور انعام ہوتا ہے اور اس انعام کا نام شعوری وجدان،سماجی ادراک اوراحساس ہوتا ہے۔یہ انعام خدا کے ایسے بندوں پر عطا ہوتا ہوتا ہے جو اپنا نہیں بلکہ خدا کے بندوں کا سوچتے ہیں،ایسے لوگ جا کر بھی واپس آتے ہیں اپنی فکر،سوچ،فہم اور الفاظ کی صورت میں۔
پسپائی کو ہار سمجھ کر سوچنے والو
میں زندہ ہوں اور پلٹ کر آسکتا ہوں
عابدؔ کی نظر میں انقلاب ومزاحمت عوامی شعور و آگہی سے جنم پذیر ہوتا ہے۔انقلاب برپا کرنا ہو تو ہاتھ میں سیف نہیں بلکہ قلم سے آگہی کا ادراک عوام کے اذہان میں بیدار کردیا جائے تو انقلاب خودبخود آجاتا ہے۔اس غرض سے انہوں نے ضیائی مارشل لا ئی اقتدار میں جہاد بالقلم کا پرچم بلند کیا رکھا اور مشہور زمانہ غزلیں اور نظمیں لکھ کر اپنا حصہ برابر ڈالا۔
ظالم تری نگاہ میں ہر وقت ہم رہے۔۔۔۔۔لیکن کمال یہ ہے کہ ثابت قدم رہے
کہنا امیر شہر سے اب ترے سامنے۔۔۔۔۔لازم نہیں کہ شہر میں سر سب کا خم رہے
انسان مرے عہد کا پتھر کی طرح ہے
اور حرفِ بغاوت اسی پتھر سے اٹھے گا
باوجودیکہ معاشی عدم مساوات،معاشرتی ظلم واستبداد،جاگیرداری وصنعتی استحصال،تاجر واہل وثروت کا مزدور وکسان کے معاشی قتل عابدؔیاسیت کا شکار نہیں ہوتے بلکہ روشن وتابندہ مستقبل اور رات کے حصار کو امید کی کرنوں سے چیرتے ہوئے نئی صبح کی نوید لانے کا مکمل تیقن رکھتے ہیں۔
ہاں اسی رات سے نکلے گی سحر کی صورت
ٹمٹماتا ہوا جگنو بھی ستارا ہے مجھے
شاعر کے دل میں مزاحمتی جوالہ مکھی کے چاہے جتنے بھی آتش فشاں پھٹنے کے منتظر ہوں جمالیاتی ذوق سے کبھی عاری نہیں ہو سکتا۔عابد کی شاعری میں بھی جمالیاتی پہلو کہیں نا کہیں ایسے در آتا ہے کہ جیسے صحرا میں بہار،اور ان کے دل سے نکلے ہوئے الفاظ قاری کو اپنے غلام بنانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
اور کیا تیرے خدو خال کو دیکھا جاتا تیری آنکھوں کے مقابل نہیں ٹھہرا کوئی
آنکھیں ترے وجود کی کب سے ہیں منتظر اے پیکر جمال کبھی روشنی میں آ
ان کی شاعری کا بنظر عمیق مطالعہ کریں تو کہیں کہیں یاسیت ج ومزاحمتی قلمکاروں کاانداز بھی ہوتا ہے در آتی ہے،کہیں کہیں سوال ابھرتے ہیں جو شکوہ کی صورت اختیار کرجاتے ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ یہ یاسیت وناامیدی عابد کے پاؤں کی زنجیریں بن کر اسے ساکت وجامد بنا دیتی ہیں اور اسے آگے بڑھنے،تحریک یا جہد مسلسل سے روک پاتی ہیں نہیں بلکہ اسے مہمیز کا کام دیتے ہوئے اپنے خدا پر یقین میں اور بھی پختہ اورارادے میں مصمم ہوتے دکھائی دیتی ہیں۔
جب تو دست سوال کردے گا دینے والا کمال کرد ے گا
زمانے بھر کی خوشیوں میں ذرا سا مرے مالک مرا حصہ کہاں ہے۔
نظم ہو کہ غزل سرمایہ داری نظام ہی نہیں بلکہ حکومت وقت کے کسی ایک غلط فیصلہ یا قومی سانحہ و حوادث پہ ان کے قلم سے جو لفظی آتش کی چنگاریاں شعلہ بن کرایوانِ اقتدار کے ٹھیکیداروں کو بھسم کرتی ہیں وہ دردمند دل ہی محسوس کر سکتا ہے۔ان کی تمام نظمیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔میں اپنے قارئین کی نذر یہ کرنا چاہتا ہوں کہ یقین جانئے ایک عرصہ بعد نظم کو واقعی نظم سمجھ کر پڑھنے کو دل چاہا اور ادب کی تمام چاشنی کو محسوس کرتے ہوئے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ہر مصرع ہیئت نظم پر پورا اترتے ہوئے ایک لڑی کی صورت منضبط ومربوط حصار میں قاری کو لے لیتا ہے۔ویسے تو تمام نظمیں ہی ماشااللہ ہیں لیکن جو اختتام ”مجھے جنت نہیں جانا“ کا کردیا میں سمجھتا ہوں کہ قلم ٹوٹ گیا اور داستاں باقی ہے۔مزید طلب کی ہوس پیدا ہوجاتی ہے کہ کاش ایسے ہی خیالات کی نظمیں اور بھی پڑھنے کو مل جائیں۔اور میں نے اس بات کا اظہار عابد بھائی سے ملاقات میں کیا بھی تھا کہ اپنی ان تمام نظموں کو بھی شامل اشاعت یا ایک اور کتاب کی صورت قاری تک پہنچائیں جنہیں آپ متروک کر چکے ہیں۔کیونکہ جب سات دہائیوں بعد بھی ہمارے سیاسی و معاشی حالات نہیں بدلے تو پھر آپ کے خیالات قرطاس و ابیض پر کیسے متروک ہو سکتے ہیں۔نظم کا اختتام کچھ طرح سے ہے کہ
نہ جانے کب کوئی جنت کا طالب
مجھ کو بھی جنت میں لے جائے
مجھے جنت نہیں جانا


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International