تازہ ترین / Latest
  Friday, October 18th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

کون کرے نجمی سے شادی

Articles , Snippets , / Thursday, September 5th, 2024

شادی ایک مذہبی فریضہ تو ہے ہی ایک سماجی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ ایک معاشی رابطہ بھی ہے کبھی آپ نے کتے، بلیوں، شیروں، لومڑیوں، لگڑ بگڑ، فاختاوں، کویلوں،بلبلوں، کونجوں، بھینسوں، گاییوں غرض کسی بھی قسم کے چرند پرند کو نکاح اور شادی کے بندھن میں بندھنے والے تمام جتنوں اور کٹھنایوں سے نبرد آزما ہوتے دیکھا ہے. شادی بیاہ کے لیے ہزاروں جتن کرنے پڑتے ہیں، کم از کم ایشیائی ممالک میں تو ایسا ہی ہے نکاح صرف مرد و زن کی باہمی رضامندی ہی نہیں دو خاندانوں کی نءی رشتہ داری کا نقطہ آغاز بھی ہےاور نکاح کے دو بول ،دو انجان لوگوں کو
ایسے آپس میں جوڑ دیتے ہیں جیسے ان کا جنم جنم ناطہ ہو. اور پھر نسل انسانی کی بقا کے لیے یہ سماجی معاہدہ صرف کیا ہی نہیں جاتا اسے نبھایا کے سرخرو بھی ہوا جاتا ہے یہی اس رشتے کا وقار اور حسن ہے.
اور وہ جو صرف شہوت کے سرور کے لیے ہر نظر آنے والے کو سبز باغ دکھا کے شہوت کے مزے لوٹتے رہے ان میں اور آزاد فضاوں میں پھرنے والے پرندوں یا خوفناک جنگلوں میں پھرنے والے ہر نوع کے جانوروں میں کیا فرق ہوا.
حیا کی پاسداریاں
وفا کی طرح داریاں
نبھاتا جا
تو گاتا جا
یہ رہ زیست کٹھن ہے
بہت ہی بڑا جتن ہے
تو پھر بھی چہچہاتا جا
نبھاتا جا، نبھاتا جا
سدا ہی مسکراتا جا
تو شادی نامی بندھن کو صبر و شعور سے نباہ کے ہم بہت ساری سماجی برائیوں سے نجات پا سکتے ہیں. نکاح پاکیزہ بندھن میں بندھنے والے ہر دو حضرات یعنی نرد و زن بھلے ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں بھلے ہی زندگی کی کٹھنایوں میں ایک دوسرے کے دکھ درد کو بانٹتے ہیں ،بھلے ہی ہر گام ایک دوسرے کا سہارا ہیں بھلے ہی خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے بر سرِ پیکار بے تحاشا این جی اوز نے چند خواتین کو مردوں سے بھی زیادہ سبز باغ دکھا کے ان کی سوچ بچار کو کافی حد تک گمراہ کیا ہے اور انھی این جی اوز کی شہ پہ یہ خواتین اپنی جگ ہنسائی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی ہیں بھلے عورت مارچ ہو یہ میرا جسم میری مرضی کا مکروہ نعرہ یہ بیچاریایاں خواہ مخواہ کے راگ الاپنے کی مشق میں نہ صرف ہمہ وقت مصروف کار رہتی ہیں بلکہ بنا سوچے سمجھے اپنے اس احمقانہ موقف سے ایک انچ پیچھے بھی ہٹنے کو تیار نہیں ہوتیں ایک بہت ہی مشہور اور خوبصورت اداکارہ ایک شو میں بڑے ہی سٹائل سے اپنے پیارے قارئین کو میرا جسم میری مرضی کا مفہوم اس طرح دے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں کہ میرا جسم میری مرضی کا مطلب یہ ہے کہ میری مرضی کے بغیر کوی مجھے چھو بھی نہیں سکتا اور اگر میری مرضی ہو تو مجھے چھو سکتا ہے گویا آپ زنا بالجبر کو تو گناہ گردان رہی ہیں مگر زنا باالرضا کے حق میں یہ بیان دے رہی ہیں کمال ہے کہ شعور رخصت ہوا اور جہالت سر چڑھ چڑھ ناچی.
وہ جسے دار پہ ہونا تھا ناں
میری تبلیغ پہ مامور ہوا
تو جدت پسندی نے جہاں بہت سی آسائشوں سے بہرہ مند کروایا وہیں بہت سی آزمایشوں میں بھی لاپھینکا. عورت اور مرد بھلے ہر کام یر گام پہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور ہر کام اور ہر گام پہ ساتھ ساتھ ضروری بھی ہیں مگر دونوں کبھی بھی نہ ایک جیسے تھے نہ ہی ایک جیسے ہو سکتے ہیں اور جو اس مساوات کو قائم ودایم کرنے کی کوششوں میں ادھ موے ہوتے جا ریے ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں.
مرد اور عورت دو مختلف ہستیاں، دو مختلف ستارے جو اپنے اپنے مدار میں گھومتے رہیں تو اچھے اگر دونوں اپنے اپنے مدار کو چھوڑ دیں تو پھر کام خراب ہی نہیں بہت خراب ہے.
ازل سے ابد تک عورت گھر داری بال بچوں کی ذمہ داری اٹھاتی چلی آ رہی ہے ساتھ ہی ساتھ ہورے کنبے کو تسبیح کے دانوں کی طرح پرو کے رکھنے کا ہنر بھی عورت ہی جانتی ہے. عورت خاندانی نظام کی بہبود کی سب سے پہلی، بنیادی اور مظبوط ترین لڑی ہے باوجود اس تلخ حقیقت کے کہ اس خوبصورت نگینے، اس بنیادی اساس، اس وفا اور مروت کے خمیر سے اٹھای گءی عورت پہ ہر دور میں بلا تفریق و رنگ نسل، مذہب، بہت سارے ظلم و ستم ڈھاے گیے بہت ساری محرومیاں خواہ مخواہ ہی اس کی جھولی میں ڈال دی گییں پھر بھی، پھر بھی، پھر بھی اس وفا کی دیوی کو سلام ہے کہ باوجود اتنی مشکلات اتنے جبر پہرے اور اتنے حصاروں کے اس حوابکی بیٹی نے اپنا کردار بڑی حد تک نبھایا بھلے ماں کے روپ میں بھلے بیٹی کے روپ میں بھلے بہن کے روپ میں بھلے بیوی کے روپ میں بھلے محبوبہ کے روپ میں اور باقی پھپھیاں، ماسیاں، چاچیاں تایاں اور نانیاں دادیاں تو خاندانوں کی رونق اور شان مان ہوتی ہی ہیں اتنی لمبی چوڑی تمہید اس لیے باندھنی پڑی کہ مجھے اپنے Asthetic clinic میں آنے والی خوبصورت نجمی مراد نہیں بھولتی جسے اس کی بھولی گاے جیسی بھولی ماں نے پیدا ہوتے ہی اپنی بہن کو سگای کے نام پہ سونپ دیا ہرنی کی آنکھوں والی حسینہ نجمی پورے گھر میں ہرنی کی طرح ہی قلانچیں بھرتی تھی چونکہ پیدا ہوتے ہی اسے اپنے خالہ زاد حسن مسعود کی منگ بنا دیا گیا تھا تو وہ اسی محبت بھرے رشتے اور احساس کی چھاوں میں پل بڑھ کے جوان ہوی تھی دونوں کی محبت پورے خاندان، محلے اور سکول کالج ہر جگہ حرف اول کی طرح عیاں ہی عیاں تھی دونوں ساتھ کھاتے پیتے ہنستے کھیلتے روتے گاتے مل کے جوان ہوے تھے اور لڑکیاں چونکہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوتی ہیں تو نجمی نے اپنی کلای پہ حسن مسعود کا بڑا ساٹیٹو بھی بڑے شوقوں سے بنوا رکھا تھا اسی لیے شاید سیانے کہتے ہیں کہ
عورت دی عقل گت دے پچھے ہندی اے
خیر نجمی کو کالج سے لینے والے حسن مسعود کو کالج کی ایک اور حسینہ اتنی بھای کہ بچپن کی منگ اور جوانی کی محبت اس حسینہ کے سامنے ایسے ماند پڑی کہ سمجھو کہ نجمی کے مقدر پہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لوڈشیڈنگ کی سیاہی پھیر گءی نجمی نے حسن کے ترلے منتیں ہر جتن کر کے دیکھ لیا اپنے ٹیٹو زدہ بازو کے صدقے دیے اپنی مری ہوی ماں کے واسطے دیے مگر حسن ٹس سے مس نہ ہوا حسن بلا خیز کی مالک نجمی ہار گءی اور اپنے بیمار باپ کی بانہوں میں مچل مچل کے بولی بابا آنکھوں دیکھی مکھی کون نگلے کون اس ٹیٹو زدہ بازو والی نجمی سے شادی کرے کون بابا کون؟ اور نجمی کا بیمار باپ ماسوائے اپنی بےبسی پہ کڑھنے اور بیٹی کی حرماں نصیبی پہ ماتم کرنے کے اور کر بھی بھلے کیا سکتا ہے. ماں ہم بہنوں سے ایک جملے کی گردان اکثر کرتی رہتی تھی آپ بھی سنییے. وہ سرمءی آنکھوں والی سروقد، گھنگریالے بالوں والی پر وقار سی خاتون یہ کہتی تھیں کہ عورت کی عزت سفید رنگ کا وہ دوپٹہ ہے جس کی پاکیزگی کی ذمہ داری صرف اور صرف عورت پہ ہی عاید ہوتی ہے اور اگر اس سفید دوپٹے پہ کوی ہلکا سا داغ دھبہ بھی جانے انجانے میں لگ گیا تو اس کا خمیازہ چاروناچار عورت کو خود ہی بھگتنا ہوتا ہے. اور جب معصوم، جھلی سی باکردار نجمی بن پانی کی مچھلی کی طرح اپنے بے بس باپ کی بانہوں میں مچل مچل جاتی تھی تو گھر ہی نہیں کاینات کے درو دیوار بھی لرز لرز جاتے تھے یہ کس قسم کا انصاف ہے یہ کون سا قانون ہے کہ کءی کءی لڑکیوں سے محبت کے دعوے کرنے والا مرد، کءی کءی عورتوں کے جسم سے لذت گناہ حاصل کرنے والا مرد جسے مذہب نے بھی چار شادیوں کی اجازت دے رکھی ہے کسی عورت کی معمولی غلطی اور عیب کو برداشت کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتا. اور زیبی جیسی گھریلو بچیاں بھی اپنی بچپن کی منگ اور محبت کو کھو دینے کے عذاب سے گزرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کر پاتیں
تو عورت کو اپنے کردار، گفتار کی حفاظت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے امتیازی سلوک کے لیے بھی تیار رہنا چاہئے عورت اس لیے بھی قابل احترام ہے کہ اس میں صبر و استقامت مردوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے.
نجمی ترے روگ
نجمی تیرے روگ زیادہ ہیں
ہستی کو سوگ زیادہ ہیں
تجھ پہ تہمت بھی زیادہ ہے
تجھے لاحق جوگ زیادہ ہیں
نجمی تیرے آنسو پونچھوں کیا
تیرے غم اور روگ زیادہ ہیں
ڈاکٹر پونم گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International