تازہ ترین / Latest
  Friday, October 18th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

سماجی رویوں کارومان پرور سخنورآصف شفیع

Articles , / Sunday, September 8th, 2024

مرادعلی شاہدؔدوحہ قطر
میری رائے میں ہر کس و ناکس سخنور نہیں ہو سکتا شاعر وہی کہلاتا ہے جس کا شعوری وجدان قاری پر وجد طاری کر دے۔اس لئے کہ شعر دراصل شعور کا دوسرا نام ہے۔طبع نازک اور ذوق سلیم کے متحمل قاری صرف ایسے اشعار پہ ہی سر دھنتے ہیں جس کی جڑیں سماج اور سماجی رویوں کے ساتھ جڑی ہوں۔اگر ایسا ہوتو شاعر کی ذہنی اپچ و تخلیقی و شعوری سوچ اور قاری کا فکری ادراک دونوں کو لمبے سفر کا ساتھی بنا تے ہیں۔یہی وجہ کہ فارسی زبان وادب میں فردوسی کا شاہنامہ،مولانا روم کی مثنوی،خیام کی رباعیاں اور سعدی کی حکایات میں حکایات کو جو عوامی پزیرائی اور شہرت ملی وہ کسی اور کے حصہ میں شائد اس لئے نہ آسکی کہ حکایات کا تعلق براہ راست سماجی رویوں اور انسانوں کی سماجی زندگیوں سے جڑا ہوا ہے۔
ازمنہ قدیم سے عہد حاضر تک تاریخ ایسے ہی تسوید نہیں ہوئی،شعوری فکر و سماجی رویوں کو تحریر میں لانے کے عمل میں قدما کے کارناموں،عوامی رجحانات،رزمیہ وعشقیہ داستانوں کو تاریخ میں زندہ جاوید رکھا۔اور یاد رکھئے گا کہ تاریخ کے اییض پر وہی حیات جاوداں رکھتے ہیں جن کا قلم بلا امتیازوہی لکھتا ہے جو حق وصداقت پر مبنی ہو۔خواہ ہاتھ قلم ہو جائیں اورسر تن سے جدا۔اگر ایسا ہو جائے تو پھر زہر عمر خضر عطا کرنے میں مہمیز کا کام دیتا ہے۔
آصف شفیع کا تعلق پاکستان سے باہر اردو بستیوں میں مقیم مہجری ادب کے ایسے قبیل سے ہے جن کے دلوں سے پاکستان اور رومان کو نہیں نکالا جاسکتا۔آصف شفیع کی شاعری کا اگر تخلیقی وتحقیقی،فکری وفنی،اسلوباتی وتنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ اننہوں نے سخنوری محض ادبی خدمت اور فکری آبیاری کے لئے کی ہے۔ان کا کوئی شعر بھی ایسا نہیں کہ جسے پڑھنے کے بعد قاری کو شعوری وجدان نہ ہو۔اور ان کے فکری وفنی کاوش کا سلسلہ کبھی بھی رکنے نہیں پاتا۔
پانی کو تلاش کرتے کرتے
صحرا ہی عبور کر گئے ہم
شعری اصناف کی دو بڑی کاوشوں یعنی نظم و غزل میں انہوں نے رومان کے ساتھ ساتھ سماجی انسانی شعورورویوں کو بھی ایسی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے جسے پڑھنے کے بعد میری رائے میں آصف شفیع ادبی ریس کا وہ رخشِ عرب ہے جسے مدتوں شعری محاسن کی بنا پر یاد رکھا جائے گا۔عرصہ دراز سے قطر میں مقیم آصف شفیع اردو بستی کی رونق دوبالا کرنے میں ہمہ وقت اپنی نئی تخلیق کے ساتھ مستعدو متحرک دکھائی دیتے رہتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ انسان بنا انسان کے کچھ بھی نہیں۔ان کی یہی فکر اور سوچ کی وجہ سے ان کی شاعری گہری سماجی وانسانی شعور کی عکاس دکھائی دیتی ہے۔جو انہیں دیگر شعرا سے ممتاز ومنفرد کرتی ہے۔”ذرا جو تم ٹھہرجاتے،ترے ہمراہ چلنا ہے،کوئی پھول دل میں کھلا نہیں،کبھی وقت ملے تو آجاؤ،جدا ہونا ہی پڑتا ہے“ ان کی ایسی تخلیقات ہیں کہ جن کی ایک ایک غزل اور نظم اس بات کی عکاس ہیں۔آصف شفیع کی دونوں اصناف شعری یعنی غزل و نظم کو پڑھ کر اندازہ لگانا انتہائی کارِ مشکل ہے کہ وہ نظم کا بڑا شاعر ہے یا غزل میں کمالِ یکتا۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے ان دو اصنافِ شعری کو ایک میان میں ایسے قید کر رکھا ہے کہ جسے پڑھنے کے بعد بڑے بڑے قارئین کے دلوں کو گویا فتح کر لیاہو۔
ایک ٹوٹا ہوا ستارا ہوں
خاک ہو کر جو خاک پرآئے
دل میں خواہش ہے کوزہ گر اتنی
میری ہستی بھی چاک پر آئے۔
مذکور نظم کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ایسی شاہکار نظم ہے جو آصف کی شاعری کا کمال ہے بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتی ہے کیونکہ جیسے مختصر بحر کے شاعر کو بڑا شاعر اس لئے خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اچھوتے،بڑے اور طویل خیال کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتے ہیں لیکن بہت کم ایسے شعرا ادبی میدان میں آپ کو ملیں گے جو نظم کو مختصر بحر میں پیش کرتے ہوئے قاری کے اذہان و قلوب کو فتح کر لیں۔آصف ان میں سے ایک ہیں جس کی ایک مثال اوپر پیش کی گئی ایک نظم ہے۔اگرچہ انہوں نے اپنی نظم میں زمانہ کے مصائب وآلام کے علاوہ سماجی رویوں کو مصرعوں کے قالب میں اس طرح ڈھالا ہے کہ دل واہ واہ اور عش عش کرنے کو شاعر کا حق ِداد سمجھتا ہے۔لیکن مجھے ذاتی طور پر ان کی ایک نظم”سائبان“جو کہ ماں سے محبت کی لازوال داستان لگتی ہے بہت پسند ہے۔نظم سائبان کا ایک حصہ قاری کی محبتوں کی نذر ہے
جب مہکتے خیال آنگن میں
دکھ کے موسم پلٹنے لگتے ہیں
اور دل کی شگفتہ کلیوں پر
دھوپ غم کی اترنے لگنی ہے
ایسے بے کیف موسموں میں مجھے
اپنی ماں کا خیال آتا ہے
نظام فطرت کا اگربنظر شاعر مشاہدہ کیاجائے تو یہ تین چیزوں کا امتزاج ہے یعنی سُر،تال اور لے۔سُرایک خاص تعدد میں نکلتی ہوئی آواز۔تال اس کا ردھم اور اگر یہ دونوں ہم آہنگ ہو جائیں تو ”لے“میں آجاتے ہیں۔لیکن یہ سر تال اور لے کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو نرم دل،ملائم جذبات اور انسانیت سے محبت کا احساس رکھتے ہوں۔جذبات واحساسات سے عاری لوگ ہمیشہ بے تالے ہی رہتے ہیں،بے تالوں کی زندگی ترتیب سے بھی خالی ہوتی ہے۔اور شعر،ترتیب کا دوسرا نام ہے۔یہی ترتیب،نظم یا سلیقہ آصف کی شاعری کا خاص وصف ہے۔یہ وصف جب ان کی غزل کا خاصہ بنتا ہے تو وہ تغزل کاروپ دھار لیتا ہے،جسے ادبی زبان میں موسیقیت بھی کہا جاتا ہے۔آصف کی شاعری بلامبالغہ موسیقیت سے بھرپور ہے۔ان کی غزلوں پر مشتمل پاکستان کے مشہور گلوکاروں کی مترنم آوازوں پر مشتمل ایک سی ڈی بھی دوحہ قطرمیں ریلیز کی جا چکی ہے۔جس کے افتتاحی کلمات کا ناچیز حصہ بھی رہا۔
حسن کو محبت کی اک کتاب کیا دیتا جس کے پاس کانٹے تھے،وہ گلاب کیا دیتا
جو دل کی خاک کو ہر سو بکھیر دیتا ہے ہماری آنکھ کے آنسو بکھیر دیتا ہے
یہ کون ہے جو ستاروں سے روشنی لے کر فضائے شہر میں جگنو بکھیر دیتا ہے
روح جذبات کی عکاس ہوتی ہے اور جو روح عشق مصطفیﷺ سے سرشار نہیں وہ مردہ ہونے کے سوا کچھ نہیں۔آصف ذاتی زندگی میں جتنے نرم مزاج،ملائم، ملنسار،انسان اور انسانیت سے پیار کرنے والے ہیں یہ انہی لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے جن کے دل میں عشق مصطفیﷺ اور آنکھوں میں مدینہ آباد ہو۔ان جذبات اور اپنی روحانی وقلبی کیفیت کا اظہار وہ جابجا شعری پیرہن میں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا صرف ایک یہ شعر ہی میں سمجھتا ہوں ایک دیوان سے کم نہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ عشق کے دریا سے کم نہیں،جو پڑھنے و سننے والے کو ایک الگ ہی دنیا کا باسی بنا دیتا ہے بلکہ یوں کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ ایک کیفیت میں لے جاتا ہے جہاں صرف اور صرف محبوب مصطفی سے عشق ہی ہر سو دکھائی دیتا ہے۔
سبز گنبد کو دیکھنے والے
عمر بھر روشنی میں رہتے ہیں۔
تشبیہ واستعارات،تشکیک وسہل پسندی،تراکیب وبحور،تکرار لفظی،اور صنعت تضاد و دیگر شعری اصلاحات،شاعری کو عمر خضر عطا کرتی ہیں آصف کی شاعری میں یہ سب اصلاحات کا بھرپور استعمال ہے ان سب کا تذکرہ مضمون کو مقالہ میں بدل دے گا۔بس ان کی مختلف کتب سے چند اشعار قارئین کی نذر کرتا ہوں اور فیصلہ بھی قاری پہ چھوڑتا ہوں کہ آصف کو اپنی شاعری کے وصف تادیر یاد رکھا جائے گاکیا؟
میں خواب دیکھتا ہوں اور شعر کہتا ہوں
ہنر وروں نے اسے بھی ہنر ہی جانا ہے
یہ گھڑی وصل کی غنیمت جان
پھر کوئی درمیاں نہ ہو جائے
وہ پھول ہے اور ہوا نے اس کو
کتنا خود سر بنا دیا ہے
کبھی فرصت ہو تو آ بیٹھو
ہم بیتے دنوں میں جا لوٹیں


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International