تازہ ترین / Latest
  Friday, October 18th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

وہ تیری محبت، یہ میری محبت

Articles , Snippets , / Friday, October 4th, 2024

وہ تیری محبت، یہ میری محبت
زندگی ساز ہے، محبت… ہے
یہی سچ ہے،یہی حقیقت ہے

صبح سے شام ہوتی ہے گلے میں خوشیوں کے ہار ہوتے ہیں، غم بھی بے شمار ہوتے ہیں مگر پھر بھی زندگی ایک پل کو بھی سستانے کے لیے سانس نہیں لیتی چل سو چلنا ہی اس کا ہنر اور اوج کمال ہے اس لیے پریشان مت ہوییے گا اگر اچھا وقت سدا نہیں ریتا تو برا وقت بھی گزر ہی جاے گا.
غم اور خوشی
خوشی کے ساز بھی تھم جایں گے
غم کی آثارِ بھی تھک جایں گے
خالی ہی ہاتھ شام آی ہے
اور
شام خالی ہی لوٹ جاےگی
کسی کا دل نہ توڑیےگا آپ
روح کی چوٹ نہ بھر پاے گی
زیست روے گی اور پچھتائے گی
خالق کا پیغام اور درس محبت ہی تھا اور محبت ہی ہے دنیا میں آنے والا ہر بچہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مالک ابھی محبت کی کہانی سے مایوس نہیں ہوا اور محبت کے عمل سے معرض وجود میں آنے والے ہر وجود، ہر دھڑکن اور ہر سانس کی روانی اس حقیقت کا برملا اظہار ہے کہ
عشق ہی جاوداں حقیقت ہے
دنیا کے جس بھی کونے میں ہیں آپ
جہاں جیتے ہیں، سانس لیتے ہیں
عشق ہی سانسوں کی روانی ہے
عشق تو ریت اک پرانی ہے
عشق ہی جاوداں حقیقت ہے
عشق راحت یے نہ مصیبت ہے
مرد و زن کی جسامت، سائیکالوجی، کیمسٹری، سوچنے کا، دیکھنے سننے کا، زندگی گزارنے کا انداز مختلف بالکل بالکل ہی جدا جدا ہے مگر اس جدای اور علیحدگی کے باوجود دنیا انھیں گاڑی کے دو پہیے کہہ کے انھیں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار دے دیتی ہے مگر میں مرد و زن کو گاڑی کے دو پہیے نہیں کاینات کے دو کناروں سے تشبیہ دیتی ہوں
دو کنارے ہیں
کاینات کے کنارے ہیں
بحر کے دو سرکش کنارے ہیں
دیکھنے والی آنکھیں جانتی ہیں
مرد و زن چاہ کے استعارے ہیں
ندیا کے بہتے ہوے دھارے ہیں
اور محبت کرنے والے رب نے
محبت کے استعارے بڑی چاہ اور مان سے بنا کے دنیا میں بھیجے تھے اور اس کی
بڑی خواہش تھی کہ محبت کے یہ استعارے عشق کی جاودانی کا پورا پورا اہتمام کرتے مگر برا ہو انسانی فطرت کے خلیوں میں چھپے ہوے حسد، لالچ،بے حیائی، بے وفائی اور ہرجای پن کاجس نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا اور دنیا جنگ و جدل کا میدان بن گءی لوگ لوگوں کو ذلیل و خوار کر کے خوش ہونے کو ہی زندگی کی معراج سمجھنے لگے
لوگ لوگوں کو دکھ درد دینے لگے
ایک دوجے کے زخموں پہ نمک پاشیاں
قہقہوں، رت جگوں میں وہ عیاشیاں
ہاے فطرت کو تو عمر قید ہو گءی
سچ سوالی ہوا غیرتیں سو گییں
عورت کو سہارا بلکہ مضبوط سہارا چاہیے ہوتا ہے مرد کی صورت میں اور مرد کو عورت کی صورت میں گھر گرہستی کو گلو گلزار بنانے والی ایک کم سن حسینہ. آج کل معاملات کچھ الٹے چل پڑے ہیں گھر گرہستی کو چلانے والیوں نے لالی پوڈر لگا کے بودے کروا کے دوپٹے گلوں میں ڈال کے بڑی بڑی ڈگریوں کے آسرے لے کر گھر کے سایبان یعنی شوہر نامدار کو بالکل ہی کھڈے لین لگا چھوڑا ہے. یعنی بیویوں نے شوہروں کی حکم عدولی کا بیڑہ یوں اٹھا لیا ہے کہ اسے وہ اپنا پیدایشی حق سمجھتی ہیں یہ معاشرے میں پنپنے والا ایک خطرناک ناسور ہے جب بچے اپنے گھروں میں اپنے پڑھے لکھے مہذب باپ کی اپنی پڑھی لکھی ماڈرن ماں کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پر درگت بنتے دیکھتے ہیں تو رہ ان کے پلے بھی کچھ نہیں جاتا دوسری طرف یہ بظاہر مظلوم اور معصوم نظر آنے والے شوہر حضرات بھی معاشرے میں شر پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے گھر کی نوکرانی سے لیکر اپنی سیکرٹری تک اور اپنی سیکرٹری سے لیکر ہر ملنے جلنے والی خاتون تک ہر اس حد تک تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جتنا اور جہاں تک ان کا بس چلتا ہے. گویا پڑھے لکھے لوگوں نے جھوٹی انا کے گمنام کفن باندھ کے اپنے ہی گھر والوں کو اسطرح سے نیچا دکھانا شروع کر دیا کہ بے حیائی، بیوفائی کی ایک نءی تاریخ رقم ہو چکی ہے اور وفا اور حیا کا ذکر تو ہر ہر مذہب میں بڑی فراست و بلاغت سے موجود ہے بی بی مریم کی حیا سے رسول عربی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیا دیکھ لیجیے. حیا ہی ایمان ہے اور ایمان ہی سر اٹھا کے شان سے جینے کا پیمان ہے.
ہم تباہ یوں ہوے
بے حیائی عورت کی
بے حیائی مرد کی
دونوں ہی قاتل ادا
دونوں ہی ظالم ادا
ہم تباہ یوں ہوے
عورتوں کے کھلے چہرے پیسے کی وافر مقدار میں فراہمی، گاڑیاں اور ڈرائیور، فیشن کے بھر پور قاتلانہ حملے اور مردوں کی بے باک نگاہیں زہر قاتل ہو گییں اور جہاں برباد ہوا. کسی اچھے گھر کی عورت اگر کسی مرد کو دعوت گناہ دیتی ہے اور مرد اس دعوت گناہ کو دھتکار دیتا ہے تو اس کا درجہ بہت بلند ہے لیکن عورت سراپا حسن و وفا ہے اگر مرد وفا اور حیا ہو اور عورت ناگن اور سپنی ہے اگر سرہانے بیٹھا سانپ بیوفائی کا مرتکب ہو جاے. اور موجودہ زمانے میں یہی بے حیائی اور بیوفائی ہے جو نہ ہی تیری محبت کو کوٹھے چڑھنے دیتی ہے اور نہ ہی میری محبت کو
وہ تیری محبت تھی
وہ تیری محبت تھی
یہ میری محبت ہے
میں سراپا الفت تھی
اک تاج وفا کا تھی
تو میرا سہارا تھا
مجھے جان سے پیارا تھا
وہ تیری محبت تھی
یہ میری محبت ہے
اب میں بھی شمع پیارے
اور تو بھی ہے پروانہ
ہر رنگ کا شیدای
ہر تتلی کا دیوانہ
اب کیوں روتے ہیں ہم
کیسا واویلا ہے
وہ قصہ ماضی تھا
وہ دور سنہری تھا
وہ تیری محبت تھی
یہ میری محبت ہے
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International