تازہ ترین / Latest
  Tuesday, December 24th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

جال پھیلاے ہیں صیاد نے پھر

Articles , Snippets , / Thursday, October 17th, 2024

تارا صبح سکول جانے کے لیے بڑی بے چین تھی آج اس کا کیمسٹری کا ٹسٹ تھا وہ اپنی جماعت کی چند ہونہار طالبات میں سے ایک تھی. دوسرے کیمسٹری اس کا پسندیدہ مضمون تھا مس تابندہ کو تارا کی صلاحیتوں پہ مان ہی نہیں ناز بھی تھا. اور تارامس تابندہ کی امیدوں پر پورااترنے کے لیے رات کے دو بجے تک کیمسٹری کے اسباق پہ مغز ماری کرتی رہی تھی. صبح آملیٹ والے سینڈوچ اور چاے کا ناشتہ کرتی ہوی بے فکری سی تارا کو یہ خبر نہ تھی کہ یہ اس کی زندگی کا آخری ناشتہ تھا جو وہ ماں کے ہاتھوں سے کر رہی تھی ماں سے دعائیں اور بوسے لیتی ہوی تارا سکول وین کا ہارن بجنے پہ گھر کی دہلیز ہمیشہ کے لیے پار کر گءی تھی.
جدائی
ہاے یہ جا کے نہ آنے والے
یونہی ماوں کو ستانے والے
جاتے ہیں لوٹ کے کیوں آتے نہیں
تو انتہائی اچھا ٹسٹ کر کے ماں کو اپنی کامیابیوں کا بتانے کے لیے بیتاب تارا بھی زمانے کے حسد اور بے غیرتی اور بے حیای کا شکار ہو گیی.
وہ ایسے کہ اس کی کلاس فیلو وجیہہ اس کی ذہانت سے بہت جلتی تھی اس نے چھٹی ہونے پہ جب پوری جماعت خالی ہو گءی تو کمرہ جماعت میں اکیلی رہ جانے والی تارا کو باہر سے کنڈی لگا کر کمرے کو لاک کر دیا اب جب بھولی بھالی تارا نے دیکھا کہ وہ کمرے میں بند دی گیی ہے تو اس نے دیوانہ وار دروازے کو کٹھکھٹانا شروع کر دیا بس یہیں سے تارا کی بدقسمتی نے بھی اپنا مکروہ ، بھیانک اور تکلیف دہ سفر شروع کر دیا سیکورٹی گارڈ تھا یا کوئی بااثر شخصیت وہ منحوس مارا، لعنتی انسان جو بھی تھا کم از کم تارا کے باپ کی عمر کا تو رہا ہو گا جسے اپنی جنسی ہوس کو پورا کرنے کے لیے گھر سے علم حاصل کرنے کے لیے سکول آنے والی ایک ہونہار طالبہ ایک ان چھوی کلی کا بلاد کار کرنا پڑا اور یہی نہیں جب سکول کے دیگر طلبا و طالبات کو اس سانحے کی بھنک پڑی تو انھوں نے دل و جان سے احتجاج کیا انھوں نے حکومت وقت کو واضح طور پہ. للکارا کہ اس طرح معصومیت کا قتل عام بند کیا جاے اور اس گھناونے دھندے میں ملوث ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچایا جاے. مگر یہاں بھی وہی اونچ نیچ اور حیثیت کے پھندوں نے غریب شہر کو برباد کیا.
تھے اس کی جیب میں سکے وافر
اس نے ہر حد حساب سے بڑھ کر
قاعدوں کی کتاب سے بڑھ کر
اس نے معصومیت کا خون کیا
قتل ناحق کیا، مکر بیٹھا
اک معصوم کلی مسل ڈالی
ایک جنسی درندے نے پونم
اور شیطان کے اک چیلے نے
علم کے شوق ماری بچی کو
ایک قابل سی پیاری بچی کو
یونہی بے وجہ بھنبھوڑ دیا
خون اس کا یونہی نچوڑ دیا
سانس لیتی ہوی اک گڑیا کے
منحنی جسم کو مروڑ دیا
اور احتجاج کرنے والوں کو
پاسبانوں نے توڑپھوڑ دیا
ایک بار پھر رو پڑا تھا سچ
جیت پھر ہو گیی ہے جھوٹوں کی
شیطان ڈفلیاں بجاتا ہے
کتنی بے رحمی سے مسکراتا ہے
سانچ کو آنچ دکھانے کے لیے
کتنے تیر ستم اٹھاتا ہے
بے راہ روں کو وہ بھٹکاتا ہے
اس کے چیلے بھی زیادہ پونم
اور اس کی جیب میں سکے زیادہ
چونکہ معصومیت پہ وار کرنے والے شیطان کی حیثیت اور جیب دونوں ہی بھاری تھیں تو حسب معمول زیادتی کا شکار ہونے والی بچی کے والدین کو مال و زر کے بل بوتے پہ خرید کر شیطان کی بے گناہی کا من پسند کاغذ حاصل کر لیا گیا.اور یہ شیطانی کھیل ازلوں سے جاری ہے من پسند ڈگریاں اور بے گناہی کے پروانے مہنگے داموں حاصل کر کے گناہ گار بے گناہوں کا منہ چڑاتے رہیں ہیں اور چڑاتے رہیں گے. اور
سچ دار ہی چڑھتا ہے اور سچ دار ہی چڑھتا رہے گا کیونکہ
دنیا تیرا ضابطہ ادھورا تھا
سچ سے تیرا رابطہ ادھورا تھا
تیری شیطان سے رشتہ داری تھی
اللہ سے واسطہ ادھورا تھا
تو ہمارے اور آپ جیسے شاعر کمزور، بزدل لکھاری یہ لکھ کر ہی دل کو تسلی دیتے رہیں گے کہ
یہ روایت ظلم ختم ہونے والی ہے
شام ڈھلنے والی ہے، سحر ہونے والی ہے
اسی لیے کہتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے کیونکہ قانون نے گواہی اور لکھی پڑھی گواہی اور قرآن پہ ہاتھ رکھ کے بولی جانے والی گواہی کو ماننا ہے بھلے آپ نے سکول کی شکل تک نہ دیکھی ہو اور آپ کے ہاتھ میں خریدی ہوئی پی ایچ ڈی کی ڈگری ہو تو کون مای کا لعل آپ کو جھٹلا سکتا ہے؟
اور اگر آپ نے معاشرے کے پسے ہوے چھ بیٹیوں کے مسکین، نمانے، مظلوم باپ کی پندرہ، سولہ سالہ لڑکی کو شراب کے نشے میں دھت اپنی جنسی درندگی کی بھینٹ چڑھا کے اس جہان سے اس جہان وداع کر دیا ہو تو آپ کے کروڑوں روپے جو آپ نے ہر طرح کی کرپشن سے حاصل کیے ہوں گے وہ اس مظلوم مقتول بیٹی کے مظلوم ترین اور دکھی ترین باپ کو یہ حلفیہ بیان دینے پہ آمادہ کر لیں گے کہ میری بیٹی تو گھر کی سیڑھیوں سے گر کر لقمہ اجل بن گءی. ہاے ہاے یہ غربت بے بسی اور خالی جیب بھی ناں کتنی بڑی موت ہے. لیکن پھر میں کڑھ کڑھ کے جب ہار جاتی ہوں تو یہ سوچ کے اپنے آپ کو تسلی دے لیتی ہوں کہ یہ مجبوریاں خریدنے والے امراء دنیا کی عدالت میں جیت کے ضمیر کی عدالت میں تو یقیناً ہار ہی جاتے ہوں گے.
ضمیر
کوئی اس کا ضمیر بھی ہو گا
چھین کے گا جو اس سے چین کی نیند
جو اس بے طرح ستاے گا
جو اس بے وجہ رلاے گا
راتوں کو بھوت ڈراونا بن کے
دن میں تارے سبھی دکھاے گا
کوی اس کا ضمیر بھی ہو گا
چھین لے گا جو اس سے چین کی نیند
بھلے سندھی وڈیرے ہوں یا عرب کے شیخ، پنجاب کے جاگیردار ہوں یا بلوچستان کے نواب یہ بدبخت مال و زر کے بل بوتے پہ کب تلک معصوم اور مظلوم بچیوں کے چیٹھڑے اڑاتے رہیں گے اور اگر بچیوں کا جنسی استحصال ہو رہا ہے تو چھوٹے لڑکوں اور جوان خوبصورت لڑکوں کا جنسی استحصال بھی کوی ڈھکی چھپی بات نہیں قوم لوط کی بیماری میں مبتلا قوم اس عذاب میں بری طرح سے گرفتار ہے.
خیر یہ حیثیت کا غرور گھروں سے نکل کے سڑکوں پہ راہ چلتے اور بایک پہ بیٹھوں ہووں کو بھی نہیں بخشتا اور وہ جان کی بازیاں لگا کے ان امراء کے خون بہا کی موٹی موٹی رقوم کے بعد منہ ایسے بند کر لیتے ہیں جیسے کوی حادثہ کبھی وقوع پذیر ہوا ہی نہ تھا.
لیکن میری التماس ہے کہ جتنے بھی جنسی درندے ہیں انھیں کوٹھوں کا رخ کرنا چاہیے جہاں ادایں اور جسم دونوں ہی رضا برضا قیمتاً میسر ہیں.
کہتے ہیں عورتیں رجھاتی ہیں
ہمیں گناہ پہ اکساتی ہیں
کبھی چوڑی تو کبھی پایل سے
کبھی سرخی سے کبھی غازے سے
کبھی اپنی بانکی اداوں سے
کبھی ساڑھی سے کبھی آنچل سے
سچ ہی کہتے ہو گیے پسر حوا
پر وہ جو معصوم ننھی کلیاں ہیں
وہ جو مردہ، دفن ہیں قبروں میں
کیوں انھیں خواہ مخواہ ستاتے ہو
کیوں ہمیں اتنا تم رلاتے ہو
کچھ حیا کچھ تو پاسداری ہو
نظر کو بے لگام مت چھوڑو
ضابطے اس طرح سے مت توڑو
ماں کی، بیوی کی، بہن، بیٹی کی
کرو عزت تو نہ خواری ہے
اور جب تک ان جنسی درندوں کو حکومتی سر پرستی اور دولت کی آڑ رہے گی یاد رکھیے کہ سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں، کام کی جگہوں، گلیوں، سڑکوں، بازاروں پہ حوا کی بیٹی کی عزت کی دھجیاں یونہی اڑای جاتی رہیں گے کسی بھی ایسے جنسی درندے کو سر عام پھانسی کی سزا کو قانون بنا دیجیے پھر دیکھیے گا کون مای کا لعل، کون وزیر مشیر یا ہتھیارا بنجارا حوا کی بیٹی کو اپنی جنسی آسودگی کے حصول کے لیے اس طرح کے جال بنتا ہے اور اس طرح کی وارداتوں میں کون کسی خبیث کا سہولت کار بنتا ہے لیکن اگر حکومت اور حکومتی نمایندے خود ہی حقائق کو چھپانے میں لگے رہے تو پھر معاشرے میں انتشار اور بے یقینی کے بادل ہی چھاے رہیں گے.
نصیبوں میں تیرے
اےحوا کی بیٹی
نصیبوں میں تیرے. کیوں دھکوں پہ دھکے
کیوں ٹھوکر پہ ٹھوکر
سدا چوٹ کیوں پیاری تو نے ہی کھای
بخت میں سدا کیوں ہے تیرے جدائی
تو حسن مکمل تو اک ماہ جبیں ہے
ستارہ روشن، تو اک نازنیں ہے
مگر تیرے ہاتھوں میں کاسے سدا کیوں
یہ رونے یہ ہاسے، تماشے سدا کیوں
اللہ پاک کل عالم کی بیٹیوں کا ہامی و ناصر ہو آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International