تنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔جب آپ کہیں سے بھاگ جانا چاہیں مگر ایک انچ بھی ہلنے کی سکت نا ہو۔جب آپ رونا چاہیں مگر مسکراہٹ لبوں پہ رقصاں ہو۔جب آپ چیخنا چاہیں
مگر آواز حلق میں کہیں کھو سی جاۓ۔جب آپ موت کی آرزو کریں مگر سانسیں رواں ہوں۔ہاں یہ واقعی درد کے درجوں میں بہت سنگین درجہ ہوتا ہے۔
لیکن کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب آپ اپنی شناخت کو پا لینے کے قریب ہوتے ہیں۔ آگاہی کے نئے در آپ پر وا ہونے والے ہوتے ہیں۔ مانو زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ہوتا ہے وہ وقت۔ بارش سے پہلے آنے والی آندھی کی طرح جو خاموشی سے آپ کے اندر کی دنیا کو تہس نہس کرتی ہے لیکن اس میں بارش کے آنے کی امید ہوتی ہے۔
یہاں پر آپ قرآن پاک کی پہلی سورت کے پہلے لفظ الحمدللّٰہ سے آگاہ ہوتے ہیں۔کبھی سوچا آپ نے کہ اس پاک قرآن کا پہلا لفظ یہی کیوں ہے؟
نہیں میں اللہ تعالیٰ کے کلام پر سوال نہیں اٹھا رہی بلکہ اسے کھوجنا چاہ رہی ہوں۔ اس کا مطلب ہے تمام تعریفیں اللہ ہی کے واسطے ہیں۔ عربی اتنی فصیح و بلیغ زبان بھلا تعریف کے لیے حمد کو ہی کیوں چنا گیا؟ پتا ہے کیوں کیونکہ میرے خیال میں یہ ایک لفظ ہمیں ہماری زندگی کا سب سے پہلا سبق پڑھاتا ہے۔ عرب کے رواج کے مطابق نقطوں والے الفاظ کو کمزور سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے جو یکتا و واحد ہے۔ جس کی طاقت کو ناقص انسانی عقل احاطہ نہیں کر سکتی نے اپنی ثناء کے لیے استعمال ہونے والا لفظ بھی ایسا چنا جس کو خود کو بیان کرنے کے لیے کسی نقطے کسی سہارے کی ضرورت نہیں بالکل خود پاک پروردگار کی طرح۔
اور پھر اس نے اپنے محبوب کے لیے بھی ایسے ہی نام چنے محمد اور احمد۔ انسان اس دُنیا میں اکیلا آیا ہے تن تنہا اسے اپنے اندر اور باہر کی جنگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے جب ہم کبھی کسی کو اپنا سب کچھ سمجھ لیتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ اسی کے ہاتھوں یا اسی کی وجہ سے ہمیں گراتا ہے ۔یعنی اس سہارے کو ہم سے دور کر دیتا ہے اور ہم گر جاتے ہیں۔ ہماری روح زخموں سے چور ہو جاتی ہے۔ بے بسی سی بے بسی ہوتی ہے اور ہم بہت کچھ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہے ہوتے۔
پھر ہم گرتے پڑتے الحمد سے آگے بڑھتے ہیں للہ کی جانب طرف اللّٰہ تعالیٰ کی۔کیونکہ سہارا اور امید صرف وہی ہے باقی تو سب ہمارا اپنا بنایا چھلاوا ہوتا ہے۔ پھر آپ آہستہ آہستہ اپنے سخت ہوئے دل کو جو ہر بات سے انکاری تھا حتی کہ رونے سے بھی نرم ہوتا محسوس کرتے ہیں۔ دعاؤں میں دبی دبی سسکیاں ملنے لگتی ہیں۔ ان گمنام سسکیوں اور آنسوؤں سے دل کی بنجر زمین زرخیز ہونے لگتی ہے۔
اور ایک ایسے تناور درخت کی بڑھوتری ہونے لگتی ہے جسے پھر یہ دنیا والے چاہ کر بھی اکھاڑ نہیں پاتے۔ تباہی کے بعد آپ کے اندر جنم لینے والا انسان پہلے سے بالکل مختلف ہوگا کیونکہ اب وہ خطرات کو بھانپنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہر اس ہاتھ کو توڑ سکتا ہے جو اس تک بری نیت سے پہنچے۔
تو امید مت چھوڑیں اللّٰہ تعالیٰ آپ کو لوگوں کے سامنے کمزور نہیں ہونے دے گا۔ وہ تھام لے گا مگر اس کا ذکر کرنا آپ پر بھی لازم ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمتوں کے زیر سایہ رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
تفشالا سرور چھینہ
Leave a Reply