ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
rachitrali@gmail.com
محمد یعقوب فردوسی کی کتاب “جلوۂ نور” نعتیہ ماہیوں پر مشتمل شعری مجموعہ ہے جس میں رسول اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ سے شاعر کی عقیدت و محبت کی وہ پاکیزہ کیفیت بیاں کی گئی ہے جس سے ایک عاشق رسولؐ کا دل معمور ہوتا ہے۔ کتاب میں نعتیہ ماہیا کلام کا ذخیرہ پیش کیا گیا ہے جس کا بنیادی مقصد عشقِ رسول ﷺکے جذبات کو الفاظ میں سمو کر قارئین تک پہنچانا ہے۔محمد یعقوب فردوسی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ” جب اللہ نے لوح و قلم کو پیدا کیا تو سب سے پہلے قلم کو حکم دیا(لکھ) قلم نے لوح پر چل کر وہ سب کچھ لکھ دیا جو قیامت تک ہونے والا ہے۔ لوح پر سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیملکھی گئی جب تک لوگ اس آیت کی تلاوت پر قائم رہیں گے اللہ نے ان کے لئے امان مقرر کر دی ہے۔ ایک اور جگہ یوں ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ نے قلم کو سفید موتی سے پیدا کیا۔پانچ سو برس کی راہ اس کا طول ہے اس سے نور نکلا کرتا ہے جس طرح دنیا کے قلم کی روشنائی نکلا کرتی ہے۔ پھر اسے حکم ہوا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ۔ اس نے سات سو برس میں لکھی پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم محمد مصطفیٰ کی امت میں جو اس کو ایک بار پڑھے گا میں اس کے لئے سات سو برس کا ثواب لکھوں گا۔اور پھر میرے مولا، میرے آقا، دانائے سبل، ختم الرُّسل، مولائے کُل، والیِٔ ہر دوسرا،احمدِ مجتبیٰ،حضرت محمد مصطفیٰ حسان بن ثابت ؓ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں۔۔’’بے شک اللہ تعالیٰ جبرئیل کے ذریعے حضرت حسان بن ثابتؓ کی مدد فرماتا ہے۔ جتنی دیر تک یہ رسول کی تعریف بیان کرتے رہتے ہیں‘‘۔ہمارے پیارے نبی کے اس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ آقا کملی والے کی نعت لکھنا ، پڑھنا اور سننا نبی کی سنت ہے۔جب ہم جیسے گنہگاروں اور فقیروں کا ایمان اس بات پر پختہ ہو جاتا ہے کہ آقا کی نعت ہی اصل میں ایمان ہے تو پھر نعت کا لکھنا ، پڑھنا اور سنناعین عبادت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے”۔
“جلوۂ نور” کا بنیادی موضوع عشقِ مصطفیٰ ﷺہے۔ فردوسی نے اپنے عقیدت بھرے کلام میں آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عظمت کو شاعری کی زبان میں بیان کرتے ہوئے اپنی محبت اور عقیدت کو ماہیا نگاری کی صورت میں پیش کیا ہے۔ یہ کتاب ایک خاص اور منفرد اسلوب میں لکھی گئی ہے، جس میں ماہیا نگاری کے ذریعہ عشقِ نبیﷺ کی گہرائی کو مختصر اور پُر اثر انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ محمد یعقوب فردوسی امیر بادشاہ کے ماہیا کے یہ اشعار ایک بار مطالعہ کرنے سے ہی قاری کے دل میں اتر جاتے ہیں ۔ فردوسی رقمطراز ہیں ” ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر درود و سلام بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو !تم بھی آپ پر درود اور خوب سلام بھیجو‘‘گویا میرے مولا، میرے آقا، دانائے سبل، ختم الرُّسل، مولائے کُل، والیِٔ ہر دوسرا،احمدِ مجتبیٰ،حضرت محمد مصطفیٰ پر سلام بھیجنا اللہ تعالی اور اُس کے فرشتوں کی سنت ہے۔اس لئے ہمیں بھی سرکارِ دو عالم پرخوب سے خوب تر سلام بھیجنے چاہئیں۔بلاشبہ یہ عظمت کسی کسی کے مقدّر میں لکھی ہوتی ہے۔یوں تو بے شمار شعراء نے میرے آقاکے حضور ہدیۂِ سلام پیش کیا مگر جو شہرت حضرت سیّدنا احمد رضا بریلوی کے سلام کو حاصل ہوئی وہ آج تک کسی اور عاشقِ رسول کے حصے میں نہیں آئی اور پھر کسی شاعر یا عاشقِ رسول کی نعت و سلام کو شہرت ملنا بھی بڑے نصیب اور کرم کی بات ہے ۔گزشتہ دنوں میرا مجموعہ کلام ’’ماہیا‘‘ منظر عام پر آیا تو میں سوچ رہا تھا کہ اب دو چار سال کوئی نیا مجموعہ کلام منظرِ عام پر نہیں آسکے گا کیونکہ ہم تو فقیر لوگ ہیں اور پھر تنکا تنکا اکٹھا کرنے والی بات ہے مگر اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کے ہم پر کرم دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت کم عرصے میں میری ماہیا نگاری کے مجموعوںکی اشاعت کے لئے اہتمام کر ڈالا”۔
کتاب کے پیش لفظ میں فردوسیؔ نے اللہ تعالیٰ کے قلم کی تخلیق اور قلم کی قدر و منزلت کو بیان کیا ہے۔ پھر نعت کے فن کو عبادت کا درجہ دیتے ہوئے عشقِ رسولﷺ کو ایمان کا حصہ بتایا ہے۔ ان کا پیش لفظ نہ صرف معلوماتی ہے بلکہ اس سے عشقِ رسولﷺ کی اہمیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے، جس سے کتاب کے اصل مقصد کی وضاحت ہوتی ہے۔
کتاب کے انتساب میں فردوسی نے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار بابا جی حضرت لبھو خاں مظہر حیدری سرکار، نعت گو شاعر راجا رشید محمود اور محمد حنیف نازش کے نام منسوب کیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فردوسی اپنے پیشرو شعرا کے ساتھ ساتھ اور اہلِ حق سے بھی گہری وابستگی اور عقیدت رکھتے ہیں۔ ان شخصیات کے لئے عقیدت کا یہ اظہار ایک طرف ان کے احترام کا ثبوت ہے تو دوسری طرف عشق رسولﷺ کے فروغ کا عزم بھی ہے۔
“جلوۂ نور” ایک ایسی کتاب ہے جو عشقِ رسولؐ میں ڈوب کر لکھی گئی ہے یہ نعتیہ ماہیوں کا مجموعہ قاری کو روحانی سفر پر لے جاتی ہے۔ فردوسیؔ کے ماہیا کلام میں نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کے ذکر اور آپ پر درود شریعف بھیجنے کی برکت کو منفرد انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ شاعر کا اسلوب سادہ اور آسان فہم ہے، جو کہ عوام و خاص سب کو متاثر کرے گا ان شا اللہ۔
اس کتاب کا سب سے اہم پہلو اس میں پیش کیے گئے عقیدت بھرے نعتیہ ماہئیہ کے اشعار ہیں جو قاردی کے دلوں میں عشق رسولؐ کو اجاگر کرتے ہیں۔ اردو اور پنجابی زبان میں ماہیا کی صنف کو اختیار کرتے ہوئے فردوسیؔ نے نعتیہ شاعری کو ایک نیا رنگ دینے کی کوشش کی ہے، جو ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نعت گوئی میں نئی جہات کو شامل کرنا مشکل ہوتا ہے، مگر فردوسیؔ نے ماہیا کی مخصوص صنف میں عشقِ رسولؐ کو سمو کر اس میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کی ہے۔
فردوسی کا پیغام واضح اور روشن ہے، محبتِ رسولﷺ ہی اصل ایمان ہے اور یہ محبت زندگی کے ہر شعبے میں ہمیں اللہ کی قربت تک لے جانے کا وسیلہ بنتی ہے۔ فردوسیؔ نے اپنی اس کتاب میں عشقِ رسولﷺ کو جتنی عقیدت، عزت اور احترام سے پیش کیا ہے، وہ قابلِ ستائش کے ساتھ ساتھ قابلِ تحسین بھی ہے۔
اردو ماہیا نگاری پر مشتمل یہ شعری مجموعہ شاعر کی حضرت محمد ﷺ سے محبت اور عقیدت کی ایک عمدہ مثال ہے جس میں عشقِ رسولؐ کو منفرد انداز میں ماہیا کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ محمد یعقوب فردوسیؔ نے اس کتاب کے ذریعے اپنی محبت کو اس طریقے سے پیش کیا ہے کہ یہ پہلی نظر میں ہی قاری کے دل میں اتر جاتی ہے۔ یہ کتاب ہر اُس شخص کے لیے خاص تحفہ ہے جو عشقِ رسولﷺ کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ “جلوۂ نور” عشقِ رسولؐ کی وہ قندیل ہے جو ہمارے دلوں کو منور کرتی ہے اور ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حضور اکرم ﷺکی محبت اور عظمت کو زندگی کا محور بنایا جائے۔ فردوسی کی یہ کاوش ان کی عشقِ رسولﷺ میں ڈوبی ہوئی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب قاری کے دل میں محبت اور عقیدت کا چراغ روشن کرے گی ان شا اللہ۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے محمد یعقوب فردوسی کی نعتیہ ماہیوں سے انتخاب پیش خدمت ہے۔
٭
ایک ماہیا سنایا ہے
نورِ محمد سے
یہ دیوان سجایاہے
٭
یزداں نے بنائی ہے
نورِ محمد سے
یہ دنیا سجائی ہے
٭
مولا تیری خدائی ہے
جلوۂ نور
کتاب فردوسیؔ لائی ہے
٭
یہ ربّ فرمایا ہے
زکرِ محمدتو
قرآن میں آیاہے
٭
مولا کرم فرمایا ہے
جلوۂ نور
کتاب کملاؔ لایا ہے
٭
ایک دیپ جلایاہے
نورِ محمد سے
دیوان فردوسیؔبنایاہے
٭
نعت خود رحمن لکھی ہے
ورفعنالک ذکرک
مدنی کی شان لکھی ہے
٭
گن یزداں گاتا ہے
ورفعنالک ذکرک
ربّ خود فرماتا ہے
٭
فردوسیؔ جشن مناتا ہے
جلوۂ نور سے
ماہیئے خوب سناتا ہے
٭
حق کی بات ہے
عاشق محمدکی
مولا کی زات ہے
٭
محمدکی غلامی ہے
آلِ محمد کو
یہ میری سلامی ہے
٭
قلم پہ شباب ہے
جلوۂ نور
جو میری کتاب ہے
٭
فردوسیؔ کتاب لکھتے ہیں
جلوۂ نورکا
محمد کا نام لکھتے ہیں
٭
ساری کی ساری ہے
جلوۂ نور کا
کتاب بہت پیاری ہے
٭
نامۂ اعمال لکھتے ہیں
جلوۂ نور میں
فردوسیؔ کمال لکھتے ہیں
٭
کیا شان لکھی ہے
آمدِ مصطفیٰ پہ
نعت رحمن لکھی ہے
٭
آقا کی شان لکھتا ہوں
عشقِ محمد میں
جب قرآن لکھتا ہوں
٭
نامۂ اعمال لکھتے ہیں
عشقِ محمد میں
فردوسیؔ کمال لکھتے ہیں
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
Leave a Reply