عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے نزدیک زندگی کی قوت محرکہ صرف اور صرف عشق ہے۔ ان کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہم پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ اس عشق سے مراد صرف اور صرف عشق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے – اقبال کی نظر میں عشق محض ایک جذبے کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے- امت مسلمہ کے کسی بھی عمل کو اقبال عشق کے بغیر کامل نہیں سمجھتے – یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری سے عشق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الگ کرنا جسم سے روح کو نکالنے کے مترادف ہے ۔
شوق اگر تیرا نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب
حکیم الامت سر ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال ایک عظیم فلسفی، شاعر اور مفکر بھی تھے ، انہوں نے اس دور میں مسلمانوں میں خودی اور بیداری کی روح کو دوبارہ زندہ و جاوید کرنے کے لئے انتھک محنت کی جب انگریز کی غلامی میں پسے مسلمان خود کو بے بس و لاچار محسوس کر رہے تھے۔ اقبال مسلمانوں کی بیداری کا نسخہ کیمیا ڈھونڈ چکے تھے اور وہ تھا محبت محبوب کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ اسی لئے اقبال کے خیالات اور اشعار میں محبت احمد مرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک بہت نمایاں ملتی ہے ۔ علامہ اقبال کے نزدیک عشق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مسلمان کی زندگی کا مرکز اور محور ہونا چاہیے۔ ان کے نزدیک عشق ہادی عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی انسان میں حقیقی معنوں میں روحانیت، انسانیت اور عظمت پیدا ہوتی ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
حب خیر الانام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ایمان کا حصہ ہونا چاہیے ۔ قرآن کریم کی متعدد آیات اور متعدد احادیث مبارکہ سے اطاعت و اسوہ خیر البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت ثابت ہے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ کہہ دو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو رسول اللہ کی اطاعت کرو ۔ اس تناظر میں جب دیکھا جائے تو علامہ اقبال کی پوری زندگی حب سرور انبیاء میں سرشار نظر آتی ہے۔ وہ ایک سچے عاشق ماہ کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
کون اس بات سے واقف نہیں کہ آج بھی مختلف موقعوں پر ہمیشہ رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و بڑائی بیان کرنے کے لئے جناب علامہ اقبال کے الفاظ و اشعار کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ اور یہ بات علامہ اقبال کی آقا دو جہان سے محبت کی دلیل ہے ، جو علامہ اقبال کی میر حجاز صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کو ہمیشہ کے لئے امر کر گئی ہے ۔
سالار کارواں ہے میرِ حجازؐ اپنا
اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا
علامہ اقبال کے بارے میں فقیر سید وحید الدین ، روزگار فقیر میں لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال کا دل عشق مولائے کل جہان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنا گداز کر رکھا تھا کہ جب بھی آپ کے سامنے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیا جاتا آپ کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں اور ہچکیاں لگ جاتی تھیں ۔ یہ آپ کی سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہی تھی کہ آپ بغیر کسی مالی فائدے کے بغیر فیس لئے غازی علم دین کا کیس لڑنے کے لئے تیار ہوگئے تھے ۔
کرم اے شہہ عرب و عجم کہ کھڑےہیں منتظر کرم
وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنہیں دماغ قلندری
اقبال کا یہ ماننا تھا کہ مسلمانوں کی کامیابی اور سربلندی کا راز شاہ عرب و عجم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں مضمر ہے۔ اقبال کے نزدیک محبتِ مجتبٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے لئے ایمان کی شرط اولین ہے اور اسی محبت سے دلوں میں خدا کی محبت اور خوف پیدا ہوتا ہے۔
اقبال نے مسلمانوں کو یاد دلایا کہ جب تک وہ یاسین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام اور سنت کو زندگی کا حصہ نہیں بنائیں گے، ان کی حقیقی ترقی ممکن نہیں۔ عشقِ مزمل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر نہ تو امت میں اتحاد پیدا ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی
اقبال نے سنت رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کو اپنا شیوہ ء حیات بنا لیا تھا اور وہ حب حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبے سے اتنے سرشار تھے کہ ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک رسائی کو سراپا دین قرار دیتے تھے ۔
فرشتے بزمِ رسالتؐ میں لے گئے مجھ کو
حضورِ آیہٴ رحمت ؐ میں لے گئے مجھ کو
آج بھی ہم رسول امین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں اقبال کے کہے ہوئے اشعار اسی عقیدت اور محبت سے پڑھتے ہیں جو اقبال کے محب نبی آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی سند ہے
تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی مرا ایمان زناری
حضور مولائے یثرب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی مظہر ذات الٰہی ہے- اور اگرکسی کو توحید کی روشنی نصیب ہوئی تو وہ آپ کی نگاہ التفات کا صدقہ ہی ہے – اس کائنات میں اگر رمق ہے، چہک مہک ہے، یہ نیلگوں آسماں بے ستون کھڑا ہے تو یہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام گرامی کی بدولت ہے یعنی داعی حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانِ کائنات ہیں اور بقول اقبال
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنّم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خُم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا اِستادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
اقبال اپنی شاعری میں جگہ جگہ اس محبت کو آشکار کرتے نظر آتے ہیں
اقبال! کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے
رومی فنا ہوا، حبشی کو دوام ہے
اے اللہ امت مسلمہ میں نظریہ اقبال و محبت دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل اسی آب و تاب سے زندہ کر دے جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا اور پھر سے شمع رسالت کے پروانوں کو وہی شان و شوکت اور عروج عطا فرما
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے
Leave a Reply