از: انور ظہیر رہبر، برلن جرمنی
امریکہ میں صدارتی انتخاب میں ڈونالڈ ٹرم کیا الیکشن جیتے کہ جیسے دنیا میں بھونچال سا آگیا ہو اور اس بھونچال کا سب سے پہلا اثر جرمنی کی تین پارٹی کی مشترکہ حکومت پر ہوئی۔ ان تین پارٹیوں کی مخلوط حکومت میں کل تک ایس پی ڈی( سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی ، سرخ)، گرین پارٹی ( سبز)اور ایف ڈی پی( فیڈرل ڈیمو کریٹک پارٹی، زرد) شامل تھیں۔ شروع سے ہی سب سے چھوٹی پارٹی یعنی ایف ڈی پی نے اس شراکت میں بہت شور مچا رکھا تھا۔ بات بہت زیادہ ہی بڑھ گئی تو کل ایس پی ڈی کے سربراہ اور جرمنی کے اس وقت کے چانسلر اولاف شولس نے اس پارٹی کے سربراہ جو کہ وزارت خزانہ سنبھالے وزیر خزانہ بنے ہوئے تھے کو اُن سے اُن کا قلم دان لے کرانہیں اپنے گھر بھیج دیا اور ساتھ ہی جرمنی کے صدر والٹر اسٹائین مائیر سے درخواست کردی کہ وزیر خزانہ کو اُن کے اخراج پر سرٹیفکیٹ جاری کردیا جائے۔ چانسلر کے اس احکام کے ساتھ تین رنگوں کی اس حکومت کو جنھیں ٹریفک سگنل حکومت کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، ٹوٹ گئی۔ چانسلر نے یہ بھی اعلان کیا کہ اب ایس پی ڈی اور گرین ہی اقلیتی حکومت چلائیں گے اور چانسلر جنوری میں پارلیمینٹ سےاعتماد کا ووٹ لیں گے اور اگر اُس میں ناکامی ہوئی تو پھر مارچ میں دوبارہ سے اور وقت سے پہلے جرمنی میں انتخاب کروائے جائیں گے۔
آج صبح ہی صبح یہ خبریں میری طرح بہت سارے لوگوں نے دفتر جاتے ہوئے کار میں ریڈیو پر سُنی تو حیرانی ہوئی کہ یہ کیا ہوگیا جرمنی میں؟ پھر چند گھنٹوں کے بعد خبر آئی کہ وزیز خزانہ کو گھر بھیجنے کی خبر سُن کر اسی پارٹی کے مزید دو اور وزیروں نے بھی اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ لیکن اسی پارٹی کے ایک وزیر نے احتیجاجاً اپنی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنی وزارات کو بچا لیا۔ بلکہ انہیں ایک دوسری وزارت بھی سونپ دی گئی۔۔۔
جرمنی کے عام لوگوں نے جہاں یہ خبر بہت ہی حیرانی سے سُنی وہیں لوگوں میں ایک تشویش کی لہر بھی دوڑ پڑی کہ کہیں جلد انتخاب کا اعلان نیو نازی پارٹی اے ایف ڈے ( الٹرنیٹ فور ڈاچلینڈ (جرمنی)) کے لیے تو راستہ نہیں ہموار کررہے ہیں؟؟ کیونکہ یہ نازی پارٹی پہلے ہی جرمنی کے تین صوبوں میں بھاری اکثریت سے انتخاب جیت چکی ہے یہ اور بات ہے کہ کسی دوسری پارٹی کی اُس کے ساتھ اشتراک نہ کرنے کے باعث حکومت نہیں بنا سکی ہے۔
امریکی اںتخاب میں پہلے ہی یورپی ممالک کے سربراہان صدراتی انتخاب کے لیے خاتون کمیلاہیریس کی کامیابی کی دعا مانگ رہے تھے ۔ جب ڈونالڈ ٹرم نے اپنے الیکشن میں عوام سے وعدہ کیاکہ اگراُن کی حکومت آگئی تو وہ چوبیس گھنٹے میں یوکرائین کی جنگ بند کروادیں گے اور اُن کی اس پیشنگوئی سے سب گھبرائے ہوئے تھے کہ اس طرح کہیں یوکرائین میں روس کی کامیابی اور یورپ کی شکست نہ بن جائے ۔ اب ڈونالڈ ٹرم کی حکومت تو آگئی ہے اور دیکھنا ہے کہ اُن کے پاس وہ کونسی جادوئی چھڑی ہے جس سے وہ اپنے اس وعدے کو پورا کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات تو ہے کہ یہاں یورپ میں بہت چہ میگوئیاں اس بات پر ہورہی ہیں کہ ڈولانڈ ٹرم نے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ یورپ کے ممالک اپنی حفاظت کے لیے اپنے بجٹ کی دو فیصد رقم اس کے لیے مختص کریں اور اس رقم کو نیٹوپر خرچ کریں کیونکہ امریکہ اب نیٹو میں رقم کی بہت زیادہ کٹوتی کردے گا۔ شاید یہی وہ جادوئی چھڑی ہے جس کے گھمانے سے سب یورپی ممالک خوفزدہ ہیں کیونکہ امریکہ کے اس حرکت سے ان پر مالی بوجھ بہت بڑھ جائے گا۔ ابھی توامریکہ میں نئی حکومت جنوری سے اپنی باگ دوڑ سنبھالے گی لیکن اس کے اثرات نے اپنا عمل دکھاناشروع کردیا ہے اور آج ہی جرمنی کی حکومت کا اس طرح دھڑام سے گر جانے کو اس طرح کے شکوک سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ان تمام تبدیلی کے بعد تو یہی لگ رہا ہےکہ آنے والا سال2025 مزید دنیا میں ہنگامے ہی لے کر آئے گا۔ پھر بھی یہی دعا ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو اور یہ امن دیرپا ہو( آمین)۔
Leave a Reply