تحریر: سیف الدین تختہ والا
انتخاب: سلیم خان
ہیوسٹن (ٹیکساس) امریکہ
آج کچھ تذکرہ نارتھ ناظم آباد کا ہو جائے، جی ہاں وہی نارتھ ناظم آباد جو سنہ 70 کے آخر اور 80 کی دہائی کے لوگوں کے خوابوں کی سر زمین تھا.
ہم بالخصوص ذکر کریں گے کہ جب 2K کی بس میں بیٹھ کر ہم نارتھ ناظم آباد کی طرف سفر کرتے تھے تو 7 نمبر کا پل کراس کر کے بورڈ آفس کی چورنگی پر پہنچتے ہی ٹھنڈی اور فرحت بخش ہوائیں آپ کا استقبال کرتی تھی گویا آپ کو نارتھ ناظم آباد میں خوش آمدید کہہ رہی ہوں۔
کیا بات تھی اس وقت کے نارتھ ناظم آباد کی۔ کشادہ اور صاف ستھری سڑکیں۔ ٹھنڈی ہوائیں اور ہر گھر میں لگے پھل دار درخت۔ بڑی بڑی اور گھاس سے بھری ہوئی چورنگیاں، جس میں بالخصوص بورڈ آفس چورنگی، کے ڈی اے چورنگی، واٹر پمپ چورنگی جس کا نام بعد میں فائیو اسٹار چورنگی پڑا اور پھر سب سے آخر میں سخی حسن چورنگی۔
جب بورڈ آفس سے تھوڑا آگے بڑھتے تھے تو گولڈن گیٹ کا اسٹاپ آتا تھا جہاں پر اس وقت کا مشہور چائنیز ریسٹورنٹ Me Kong ہوتا تھا اور اس کے نیچے Sardina پان شاب تھی جس کا خوشبو والا اور میٹھا پان بہت ہی عمدہ ہوتا تھا۔ Me Kong کے پچھلی طرف مین روڈ پر جناح کالج کے مقابل Cafe Lords ہوتا تھا جہاں پر اس علاقے کے نوجوان رات گئے تک اپنی محفلیں جماتے تھے۔
گولڈن گیٹ ریسٹورنٹ سے تھوڑا آگے KDA کی چورنگی آجاتی تھی اور جس کی مخصوص نشانی KDA آفس کے باہر نصب ایک پرانے زمانے کی توپ تھی۔ KDA چورنگی سے الٹے ہاتھ پر روڈ سیدھی پہاڑ کی صرف جاتی تھی اور اس وقت وہ علاقہ بھنگی پاڑے کے نام سے جانا جاتا تھا. بعد میں وہاں ڈاکڑ محمد علی شاہ صاحب نے اپنے والد کے نام سے اصغر علی شاہ کرکٹ اسٹیڈیم بنوایا تو وہ علاقہ اس اسٹیڈیم کے نام سے منسوب ہو گیا۔ چورنگی کے سیدھے ہاتھ پر عظیم چلڈرن اسکول اور اس کے سامنے والے کونے پر صغرہ بائی مل والا ہسپتال تھا جو اب سیفی ہسپتال کے نام سے معروف ہے۔ مین روڈ کے دونوں اطراف جو بنگلے تھے وہ ایک ہزار گز کے کشادہ بنے ہوئے مکانات تھے۔ ان مکانات کے سامنے ہر ایک نے اپنے اپنے لان آراستہ کئے ہوئے تھے اور کچھ لوگوں نے ان میں موزیک کی بینچیں بھی نصب کی ہوئی تھیں. اکثر خاندان شام کی چائے باہر لان میں بیٹھ کر پیا کرتے تھے۔ کے ڈی اے چورنگی سے آگے الٹے ہاتھ پر C بلاک اور سیدھے ہاتھ پر F بلاک پڑتا تھا ان دونوں بلاکوں میں اکثریت بوہری فرقہ کے لوگوں کی تھی۔
نارتھ ناظم آباد کی پلاننگ اس طرح کی گئی تھی کہ ہر دو رہائشی بلاکوں کے درمیان ایک کمرشل بلاک تھا جیسا کہ C اور D کے درمیان E بلاک کمرشل اور F اور H کے درمیان G کمرشل بلاک جس پر حیدری مارکیٹ واقع ہے. اسی طرح L اور N کے درمیان M کمرشل بلاک اور I اور J کے درمیان K کمرشل بلاک ہے۔
اس زمانے میں پورے نارتھ ناظم آباد، شادمان۔م، بفرزون تک کے علاقوں کو صرف ایک تھانہ کنٹرول کرتا تھا جو کہ بلاک D میں شپ اونر کالج جانے والی روڈ پر ایک کونے کے گھر میں واقع تھا۔ آج ان تمام علاقوں کے لئے پندرہ سے زیادہ تھانے ہیں مگر پھر بھی جرائم پر قابو نہیں پا سکتے۔
کے ڈی اے چورنگی سے آگے آکر الٹے ہاتھ پر کمرشل بلاک E واقع ہے جہاں پر بوریوں کی نمکو کی دوکانیں اور پرانا میڈیکل اسٹور اسقف تھا، جس کو یوسف بھائی چلاتے تھے. یہ اسٹور آج بھی موجود ہے۔ حیدری سوئیٹ بھی پرانی دوکان ہے ۔ اس وقت کی مشہور فوٹو گرافی کی دوکان photo Fame کے نام سے تھی جس کو انیس بھائی، ایوب بھائی اور ندیم چلایا کرتے تھے ۔
وہاں اس وقت کا مشہور کولڈ اسپاٹ Montina کے نام سے تھا جو آج بھی موجود ہے. اس کی ڈرائی فروٹ آئیس کریم کا جواب نہیں۔ مونٹینا کولڈ اسپاٹ کے پچھلی طرف جہاں بوہریوں کی ہارڈ وئیر کی چند دوکانیں تھیں اب وہاں پر باقاعدہ پوری ہارڈویئر کی مارکیٹ بن چکی ہے۔
اس کے مخالف روڈ کے دوسری طرف حیدری مارکیٹ ہے۔ مین روڈ کی پرانی دوکانوں میں ایک انبالہ سوئیٹ کی دوکان تھی جس کا مالک سلمان تھا۔ اس کے ہی ساتھ جمیل سینٹری کی دوکان تھی جس کہ مالک جمیل بھائی تھے جوکہ متین فوڈ والے چوہدری متین کے بڑے بھائی تھے اور ان کی رہائش L بلاک میں تھی. ان کے برابر میں ساوا شوز کے نام سے جوتوں کی دکان تھی جسے سلطان بھائی چلایا کرتے تھے. بعد میں جب اوپر والی مارکیٹ بنی تو مالکان کو اس کا زینہ نکالنے کے لئے آگے کی دوکانیں چائیے تھیں لہذا ان دو تین دوکانوں کو انہوں نے اس زمانے میں منہ مانگے پیسوں میں خریدا تھا۔ کونے پر پیڑول پمپ واقع تھا جہاں آج مدنی مال بن چکا ہے۔ پمپ کے برابر میں اس زمانے میں حیدری کی مشہور چنہ چاٹ اور فالودے کی دوکان تھی. گو کہ یہ دوکان آج بھی موجود ہے مگر اب ان کا وہ معیار نہیں رہا۔ دوسرے کونے پر دودھ دہی کی بدر اینڈ سنز کی دوکان تھی اور اس کی لسی بڑی مشہور تھی. یہ دوکان آج بھی موجود ہے مگر سمٹ کر بہت چھوٹی سی رہ گئی ہے. دوکان کا بڑا حصہ بدر صاحب نے چوڑی والوں کو فروخت کر دیا تھا۔ بدر صاحب کی رہائش بھی نارتھ ناظم آباد H بلاک میں تھی. اس سے آگے گھڑی والوں کی دوکان کے ساتھ ایک میڈیکل اسٹور ہوتا تھا جس کا نام العباس میڈیکل اسٹور تھا، اس کے مالکان مرتضیٰ سلطان بھی بلاک H کے رہائشی تھے۔
بلاک H کی طرف جس جگہ پر بلاک H اور بلاک L آمنے سامنے پڑتے ہیں وہاں L بلاک میں علاقے کی پہلی بیکری جو کھلی تھی وہ Crown بیکری تھی پھر روڈ کے دوسری جانب H بلاک میں Prince بیکری کھلی اور اسی طرح Fancy بیکری بورڈ آفس بلاک A میں کھلی تھی، بلاک M میں پہلی بیکری مدینہ بیکری تھی۔ ان تمام بیکریوں کے مالکان سب آپس میں رشتے دار تھے اور ان کا تعلق آگرہ ہندوستان سے تھا۔ اس وقت کراچی کی زیادہ تر بیکریوں کے مالکان کا تعلق آگرہ سے ہی تھا۔
آج بھی کراچی میں زیادہ تر بیکریوں کے مالکان آپ کو آگرہ والے یا کشمیر کے لوگ ملیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزوں کے زمانے میں جو انگریز اس وقت آگرہ میں آباد تھے انہوں نے بیکنگ کا کام وہاں کے مقامی لوگوں کو سکھایا اور کچھ اسی طرح کشمیر کے میں بھی ہوا. بعد میں ان لوگوں نے یہ ہنر اپنی اولادوں کو منتقل کیا۔
بلاک H میں دودھ دہی کی دوکان بدر اینڈ سنز کھلی جس کی لسی بہت مشہور تھی ، بدر صاحب خود اس دوکان کو دیکھتے تھے، ان کی ایک اور دوکان حیدری مارکیٹ کے کونے پر آج بھی موجود ہے جس کو ان کے صاحبزادے قمر چلا رہے ہیں۔
جب فائیو اسٹار چورنگی سے سیدھے ہاتھ پر لنڈی کوتل چورنگی کی طرف جاتے ہیں تو L بلاک کی پانچویں یا چھٹی گلی کے کونے پر اس زمانے کی ٹیلر شاپ تھی جس کا نام قمر ٹیلر تھا، اس ہی دوکان کے آگے روڈ پر بابو بھائی بند کباب کا ٹھیلہ لگاتے تھے اور آج بھی موجود ہیں. اب ان کا بیٹا اس کام میں ان کی مدد کرتا ہے۔ ان کے بند کباب نہایت لذیذ ہوتے ہیں یہ بند کباب سیخ کباب کے یا سیخ بوٹی کے ہوتے ہیں، بابو بھائی بھی اس علاقے کی پرانی شخصیت ہیں ، قمر ٹیلر کے برابر میں عرفان سائیکل والے کی دوکان تھی جہاں پر لوگ اپنی سائیکل مرمت کرواتے تھے اور یہاں کرایہ پر بھی گھنٹے کے حساب سے سائیکلیں ملا کرتی تھیں. تھوڑا آگے جا کر کراؤن بیکری آجاتی تھی اور اس سے ذرا آگے Brighter Grammar اسکول آجاتا تھا۔ اس اسکول کا پٹھان چوکیدار اسکول بند ہونے کے بعد وہاں پر پتنگیں، مانجھا اور سدی بیچا کرتا تھا، تھوڑا آگے آمنے سامنے دو عدد کرکٹ کے گراؤنڈ پڑتے تھے. الٹے ہاتھ والا گراؤنڈ Jaffco Cricket club کا تھا جس میں اس دور کے کھلاڑیوں میں عتیق اللہ، خلیق اللہ، معین بھائی، طاہر درانی وغیرہ تھے۔ اسی طرح دوسرا گراؤنڈ NNG کا تھا اور اس کے مشہور کھلاڑیوں میں امجد، یاسین مہندی، ظفر مہندی، وقار چودھری، نصرت وغیرہ شامل تھے۔
اس زمانے میں کرکٹ کے معیار کا یہ عالم تھا کہ ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد کے کھلاڑیوں میں سے آپ بہترین کھلاڑی چن کر پاکستان لیول کی دو عدد ٹیمیں بنا سکتے تھے۔
اب ہم آتے ہیں لنڈی کوتل کی چورنگی کی طرف. اس چورنگی کا نام لنڈی کوتل کیوں پڑا۔ دراصل اس چورنگی سے ذرا آگے طاہر ولا کی طرف جاتے ہوئے لیاری ندی پڑتی تھی اور اس کے پل کے نیچے ندی کے کنارے پٹھانوں نے خیمے لگائے ہوئے تھے جن میں وہ لوگ اسمگل شدہ کپڑا پیچتے تھے اور کافی دور دور سے خواتین اور مرد حضرات یہاں کپڑا خریدنے آتے تھے. ان ہی پٹھانوں کی نسبت سے اس چورنگی کا نام لنڈی کوتل کی چورنگی پڑ گیا۔ بعد میں یہ پٹھان یہاں سے اٹھ کر سہراب گوٹھ پر جا کر آباد ہوئے اور اسمگل کپڑے کی مارکیٹ بھی وہاں منتقل ہوگئی۔
یہاں پر لیاری ندی کا تذکرہ آیا ہے تو اس کے بارے میں بھی کچھ بتاتا چلوں. یہ ندی کاٹھور کے علاقے میں واقع ایک آبشار کھادے جی فال کے مقام سے نکلتی تھی اور سہراب گوٹھ، شفیق موڑ، کیفے پیالہ، لنڈی کوتل، موسی کالونی، تین ہٹی، لسبیلہ سے گزرتی ہوئی ماری پور کے مقام پر جا کر سمندر میں گر جاتی ہے۔ اس زمانے میں یہ ایک صاف شفاف پانی کی ندی تھی جس کے بیچ میں بڑے بڑے پہاڑی پتھر پڑے ہوتے تھے جن سے ٹکراتے ہوئے یہ ندی وہاں سے گزرتی تھی، ہمارے محلہ کے بڑے لڑکے اس ندی میں نہانے جایا کرتے تھے۔ کچی آبادیوں کے بے ہنگم بڑھنے اور اس کے نتیجے میں ندی کے اطراف میں آباد ہونے والوں نے اپنی سیورج کی لائینیں اس ندی میں ڈال کر اس کو غلاظت سے بھرا ایک نالہ بنا دیا۔
اب دوبارہ واپس آتے ہیں اپنے نارتھ ناظم آباد کی طرف۔ جیفکو گراونڈ سے تھوڑا آگے ظفر ہاوس کا اسٹاپ آتا تھا اور اس کے بعد نیاز منزل کا اسٹاپ۔
Leave a Reply