عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو فیس بک کی دنیا سمندر کی طرح گہری ہے ۔ لیکن اس میں ایک خصوصیت ہے کہ یہ ہم خیال لوگوں کو ملانے کا ذریعہ بن رہی ہے ۔ اور یوں آپ ان عظیم لوگوں سے مل پاتے ہیں جن سے پہلے ملنا اور جاننا تقریبا ناممکن تھا۔ ایسی ہی ایک شخصیت جناب ظہور چوہان صاحب کی بھی ہے ۔ جن کی محبت سے فیس بک کے ذریعے آگاہی حاصل ہوئی ۔ اور انہوں نے کمال محبت سے اپنی کتب روانہ کرنے کا پیغام دیا ۔
اور پھر بذریعہ ڈاک محترم ظہور چوہان صاحب کا محبت نامہ موصول بھی ہو گیا۔ جس میں دو عدد کتب بنام خالی سڑک اور دنیا میری ہتھیلی پر موجود تھیں۔ان میں سے ایک غزلوں کا مجموعہ ہے اور ایک نظموں کا مجموعہ ہے ۔ تو ذکر ہو جائے تازہ شائع شدہ کتاب ، نظموں کے مجموعہ خالی سڑک کا ۔
خالی سڑک سے پہلا تعارف کتاب پر موجود خالی سڑک کے سرورق کے ذریعے شروع ہوتا ہے ، جو آپ کو اس سڑک پر چلنے کے لئے ایک بلاؤا ہے ۔ کہ آئیے اس سڑک پر چل کر آپ کو سوچ کا آسمان چھونے کی دعوت ہے۔
خالی سڑک کتاب کھولتے ہی پہلے ہی ورق پر باہو کے الفاظ آپ کے پاؤں جکڑ لیتے ہیں اور بہت دیر آپ ان لفظوں کی گہرائی میں گم سم کتاب تھامے بس خلاء میں کچھ کھوجتے رہتے ہیں ۔ کیا لوگ تھے جو زندگی کی حقیقت کتنی سادگی سے یوں کھول کھول کر بیان کر گئے کہ آپ حیران رہ جاتے ہیں ۔ آپ بمشکل صفحہ آگے کرتے ہیں تو رومی کا ایک جملہ پوری کائنات کے راز کی تشریح کی صورت موجود ہے ۔ خاموشی ، واقعی کتنی بڑی حقیقت ہے یہ خاموشی بھی ۔ ظہور چوہان صاحب کا تعارف تو ان دو صفحات سے ہی شروع ہو جاتا ہے کہ ارسطو نے کہا تھا کچھ بولئے تاکہ آپ کی پہچان ہو سکے اور اتنی بھرپور پہچان کے بعد آپ ایک ایسے دریا میں اترنے کو تیار ہو جاتے ہیں جہاں گیان ہے ، جہاں گمان ہے ، جہاں حقیقت ہے ، جہاں اندھیرا ہے ، جہاں اجالا ہے ،جہاں آس ہے ، جہاں پیاس ہے ، جہاں درد ہے ، جہاں دوا ہے جہاں زندگی کا ماتم ہے اور جہاں موت کا رقص ہے ۔
کتاب کا آغاز چنبیلی کی دھیمی دھیمی خوشبو سے ہوتا ہے۔ جو آپ کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتی ہے ۔ ایک خوشبو جو اس پودے سے آ رہی ہے جو آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ اور یکدم ہی باہو آپ کے من میں گنگنانے لگتا ہے ۔ آپ باہو اور رومی کے ہمراہ رقص کرنے لگتے ہیں ۔ چار سو چنبیلی مہک رہی ہے ۔ اور اسی دوران دنیا کی حقیقت واشگاف الفاظ میں آپ کے سامنے رکھ دی جاتی ہے۔
روشنی ہے چنبے دی بوٹی
زندگی ہے چنبے دی بوٹی
آگہی ہے چنبے دی بوٹی
جہاں جہاں پر ہول اندھیرا ہوتا ہے
اس کی مہک سے وہاں سویرا ہوتا ہے
آپ ابھی زندگی سے آگاہی کے دعویدار بھی نہیں ہوتے کہ ظہور چوہان زندگی کا ایک نیا رنگ صبر اور دکھ کے کپڑے میں لپیٹ کر سامنے رکھ دیتے ہیں ۔ اگلی نظم سیدہ زینب کی روضہ رسول پر حاضری آپ کو ایک ان دیکھے واقعہ سے روشناس کروانے کی کاوش ہے ۔ جب بنت علی شام کے دربار سے واپس مدینہ پہنچی ہوں گی تو کیسا عالم ہو گا ۔ صبر کا پیکر دکھ کی چادر میں لپٹی اور حاضری روضہ رسول کی ۔ ان مناظر پر ایک رقت آمیز منظر بہت خوبصورتی سے قلم بند کیا گیا ہے۔
آنسوؤں نے سسکیوں اور ہچکیوں نے
صرف اپنی خامشی کو توڑا ہو گا
وگرنہ والئی کون و مکاں
بے خبر کب ہیں
انہیں آغاز سے انجام تک معلوم ہے سب داستاں
جنازوں پر رقصاں لوگ ،یہ نظم نئی تہذیب کی موت پر رقص ہے یا بے حسی کا ماتم آپ کو سوچنے پر ضرور مجبور کر دے گی۔
ظہور چوہان صاحب کی یہ نظموں سے آراستہ کتاب ہے ۔ جہاں ہر نظم آپ کو ایک نئے ذائقے سے متعارف ضرور کرتی ہے لیکن اس ذائقے میں ایک لہجہ مجید امجد کا آپ کے ساتھ ساتھ چلتا ہے جس کا ادراک آپ کو روح مجید امجد سے ملاقات سے ہو جاتا ہے ۔
تو ایسے میں اچانک سامنے روح مجید امجد
کسی روشن ستارے کی طرح
دکھائی دیتی ہے مجھ کو
وہ خضر راہ کی مانند میری رہنمائی کرنے لگتی ہے
ملتان اور باہو سے خصوصی محبت اور ملتان کی اہمیت اجاگر کرتی نظمیں ایک عاشق کا محبوب شہر کے لئے گراں قدر تحفہ ہے جو صفحات پر ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا ہے ۔
اس کتاب میں سوچ و فکر کی دعوت دیتی 38 نظموں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں چند نظمیں خاص طور پر آپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ وہ چنندہ نظمیں ہماری رائے میں یہ ہیں ۔
کباڑخانے میں قیمتی چیزیں ، واہگہ بارڈر کے دونوں طرف ، دلوں کی سرحد ، پہلا مردہ انسان ، کشمیری زندان میں خواب، امن کی جنگ ، امکانات کی دنیا ، ن م راشد سے مکالمہ ، بولتی تصویریں، ماں کی قبر پر حاضری ، زندوں کے جنازے۔
ان کو آنسو دینے والے
ان کے بھی آنسو پونچھیں
بھلے دکھاوا ہو اس میں
اتنا تو احسان کریں
زندوں کر حیران کریں
چونکہ نظم میں ایک خیال کو باندھا جاتا ہےاس لئے اس میں قاری کو مکمل بات سمجھانے میں زیادہ آسانی ممکن ہے اور جناب ظہور چوہان صاحب نے کمال خوبصورتی سے کوشش کی ہے کہ قاری کو زیادہ مشکل الفاظ میں الجھانے کی کوشش نہ کی جائے ، بلکہ آسان الفاظ میں مافی الضمیر بیان کر کے فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ اس سڑک پر سے خالی ہاتھ واپس جانا چاہتا ہے یا زندگی کی سچائیوں کا ادراک لے کر جانا چاہتا ہے۔
Leave a Reply