تمثیلہ لطیف
اردو غزل نے جب سے آنکھ کھولی ہے وہ ہر دلعزیز صنف شاعری کے طور پر سامنے آئی ہے ۔ اردو غزل کی ترویج و ترقی میں شاعرات نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہی میں سے ایک شاعرہ عابدہ شیخ ہے ۔ عابدہ شیخ کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ وہ ایک پُر گو شاعرہ ہے
“ضرورت کیا ہے ؟”
ردیف کی حامل غزل میں عابدہ شیخ نے 101 اشعار کہے ہیں ۔ اور یقینی طور پر یہ اردو کی طویل غزلوں میں سے ایک غزل ہے۔ موجودہ عہد میں اتنی طویل غزل کہنا شاعرہ کے لاجواب تخیل کے ساتھ ساتھ بے مثال مشاہدے کی دلیل ہے اس غزل میں انہوں نے 7 مطلعے کہے ہیں ۔ عابدہ جی کی شاعری قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ اور وہ سادہ اور عام زبان میں کہے گئے اشعارسے لطف اٹھانے لگتے ہے یہ ایک شعر ملاحظہ کیجے
_بوڑھی ہڈی کو گلانے کی ضرورت کیا ہے
سخت سردی میں نہانے کی ضرورت کیا ہے
ان کے ہاں قوافی محض تَک بندی کے لیے نہیں، نا ہی شعر کا مقصد پورا کرنے کے لیے ہے بلکہ عابدہ نے قافیہ اور ردیف کا انسلاک اتنی عمدگی سے کیا ہے کہ شعر سہل _ممتنع کی شکل اختیار کر کے ہمارے سامنے آتا ہے
یہ شعر دیکھئے موجود عہد میں انسانی رویوں پر کتنی چابک دستی سے طنز کیا گیا ہے
جانتے ہو تو بتانے کی ضرورت کیا ہے
جب نئے ہیں تو پرانے کی ضرورت کیا ہے
عابدہ جی کے ہاں غزل کی شعریات سے خوشہ چینی خوب خوب نظر آتی ہے ان کے ہاں رنگینی بھی سلیقے سے پیش کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ طمطراق اور سنجیدگی بھی ملتی ہے
ان کی غزلوں میں نسوانی جذبات کی عکاسی بھی خوش گوار انداز میں ملتی ہے
بس وہ مل جاے کسی موڑ پے جیون کے مجھے
پھر کسی اور کو پانے کی ضرورت کیا ہے
وہ نکما ہے مجھے خوب پتا ہے بھائی
اس کے بارے میں بتانے کی ضرورت کیا ہے
عابدہ جی کے ہاں ہجر کی تلخی جس انداز میں پیش کی گئی ہے وہ انداز قاری کے دل میں گھر کر جاتا ہے
ہجر کی آگ ہی کافی ہے جلانے کے لئے
مجھ کو دوزخ میں جلانے کی ضرورت کیا ہے
تجھ کو کرنا تھا جو نقصان مرا تو نے کیا
اب یہ افسوس جتانے کی ضرورت کیا ہے
جس نے ایک بار بھی مڑ کر نہیں دیکھا تجھ کو
اس سے امید لگانے کی ضرورت کیا ہے
عابدہ جی کے ہاں ایک سے زیادہ مطلع کہنے کا رواج عام ہے ۔”تو کؤی بات بنے” ردیف کی حامل غزل میں انہوں نے پانچ مطلع کہے ہیں۔
ہاتھ سے ہاتھ کئ بار ملایا ہم نے
دل سے اب دل بھی ملاؤ تو کؤی بات بنے
انگلیاں وہ جو اٹھاتے ہے میری ذات پہ بس
آئنہ ان کو دکھاو تو کؤی بات بنے
عابدہ جی کی شاعری میں ہمیں تانیثی جذبات خوشی و غم کے ساتھ ساتھ ہجر کا قرب بھی صاف نظر آتا ہے ۔ ان کی شاعری میں مترنم لب و لہجہ بھی ایک خاص اہمیّت کا حامل ہے ۔ ان کے لہجے نے ان کی غزلوں میں مزید خوبصورتی پیدا کر دی ہے ۔ ان کے لفظوں میں گھلاوٹ اور بلا کی سادگی ہے۔ ان کے یہاں الفاظ بہت ہی فطری معلوم ہوتے ہے ۔ان کے ہاں اشارے نہیں ملتے بلکہ سیدھے سبھاؤ بات کی جاتی ہے
عابدہ جی کے ہاں دس سے زیادہ اشعار پر مشتمل غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں ۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے پر سوزو گداز بھی مل جاتا ہے ۔ وہ رنج و غم کو ظاہر کرنا ہی نہیں چاہتی ۔ ان کی غزلوں میں فطرت کی شمولیت بلکل فطری لگتی ہے ۔اور ایک ایسی فضا تخلیق ہو جاتی ہے کہ جس میں خوشگوار لمحہ ، فکر ، غم و اندوہ ایک ہی مرکب میں ڈھلے نظر آتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی شاعری میں اس مشاعرے کو لتاڑنے کی کوشش کی ہے جو عورتوں کو برابری کے حقوق دینے کی بجائے ان پے ظلم کرتا تھا
آرام سے جینے کا ہنر ان کو سکھا دو
“اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو”
بنیاد جو باطل کی حکومت کی ہلا دے
اک بار تو وہ نعرہ تکبیر لگا دو
عورت کی عزت و آبرو کا انہیں بہت ہی پاس و لحاظ ہے ۔ اس لیے ان کی غزلوں میں نسوانی مسائل نظر آتے ہیں اوروہ ان کا حل بھی بتاتی ہے ۔ ان کی شاعری میں مساوات کا تصور ہے ۔ عابدہ شیخ کو انسان دوستی کی بے باک آواز کہا جاۓ تو بے جا نا ہوگا ۔ ان کی شاعری میں انسان دوستی سے متعلق مضامین ملتے ہیں ۔جن میں انسان کی قدرو قیمت ، مقام و مرتبہ ،انسانی مشقت اہم ہے۔ان کی شاعری میں انسان کی زندگی پوری وسعتوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ یہ اشعار دیکھئے
جو اپنا ہنر بیچ کے کرتے ہیں گزارا
مقدور اگر ہو تو غنی ان کو بنا دو
جو خون غریبوں کا بہت چوس رہی ہے
تم ایسی حکومت کو امارت کو گرا دو
یہ اشعار اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ عابدہ شیخ نے اردو شاعری کو نئے موضوعات سے ثروت مند کیا ہے ۔ عابدہ شیخ کو ان کی شاعری کی وجہ سے بہت یاد رکھا جائے گا
Leave a Reply