کہنے کو تو شعور آگیا زمانے کو
لوگ پڑھنے لگے کتاب بس دکھانے کو
غم زمانے میں سدا ہی رہا چوانی کا
کبھی پوری، کبھی آدھی، کبھی دوانی کا
نشہ اس آنکھ میں دیکھا تو بس جوانی کا
اور انجام تو دیکھو کبھی کہانی کا
کبھی گولی،کبھی خنجر سے مار دیتے ہیں
بنت حوا کو وہ زندہ بھی گاڑ دیتے ہیں
کہاں ہے جدید دنیا؟؟
کہاں ہے شعور و آگہی؟؟
کہاں ہیں عورت کی تکریم کے جھوٹے دعویدار؟؟
ارے عالم کون و مکاں میں اپنے ساتھی کے ہاتھوں سب سے زیادہ تنگ کی جانے والی جاندار تو یہ عورت ہی ہے، یہ حوا ہی کی بیٹی ہے بھلے اس حسن بے بہا کو جس قیمت کے ریپر میں سجا کے جتنی مرضی مہنگے گہنوں سے سجا کے بھلے سیکڑوں بھلے لاکھوں روپے خرچ کے جس مرضی بیوٹی پارلر سے تیار کروا لو زیادہ تر سماج کے لوگ تو اس گاے جیسی عورت کو اس بھولی بھالی مورت کو صرف اور صرف ایک استعمال کی شے ہی سمجھتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے گھر میں استعمال کی باقی چیزیں ہوتی ہیں.
استعمال کی چیزیں
جیسے فرنیچر گھر کا
برتن کچن کے سارے ہوں
پہننے والے کپڑے ہوں یا
حلوہ مانڈہ، کھابے ہوں
بالکل ویسے مجھے بھی سمجھیں
کوی بھانڈا، کوی کپڑا
کبھی کبھی ہلکا اور کبھی تگڑا
مگر پل پل کا ہے جھگڑا
کہ جیسے رزق کے لقمے
کہ جیسے دھرتی کے ٹکرے
مجھے بھی سمجھیں وہ لفڑا
کبھی روٹی کا اک لقمہ
کبھی دھرتی کا اک ٹکرا
مجھے بھی اپنے جیسا کاش وہ انسا ں سمجھ لیتے
رواں سانسوں کی گردش میں مجھے بھی جاں سمجھ لیتے
مگر یہ کہنے، سننے، سمجھنے اور لکھنے میں مجھے کچھ بھی عار نہیں ہے کہ صدیوں کے رولے اور سیاپوں کے باوجود بھی ہم خواتین تھوڑے سے زیر، زبر کے فرق کے ساتھ ابھی بھی اسی عہد جہالت کی خواتین ہیں جنہیں کبھی پیدا ہوتے ہی زندہ گاڑ دیا جاتا تھا اور کبھی پیدا ہونے سے پہلے. علاوہ ان معدودے چند ماڈرن، آزاد اور خود مختار خواتین کے جنہیں قابل ترین ماوں کے تربیت یافتہ مہذب، سلجھے ہوے اور بیبے شوہر حضرات میسر ہیں باقی تو عورت بھلے کسی جھگی واسی کے گھر کی ہو یا کسی محل چوبارے کی سمجھا اسے سامان ہی جاتا ہے.
کبھی تو جان کہتے ہو
کبھی پہچان کہتے..ہو
ہمیں تم نام دیتے… ہو
اپنی پہچان دیتے.. ہو
کبھی دکھ درد دیتے ہو
ہمیں غم دان دیتے… ہو
اک سانسیں لیتی مورت کو
سبھی سامان کہتے ہو
ارے بیٹی کے پیدا ہونے پہ تو جہاں دای کے دام گر جاتے ہیں وہیں پہ ماں کی شان بھی کم ہو جاتی ہے چودہویں کا چاند مانو ایک ہی پل میں پہلی رات کا ہو جاتا ہے
پیٹی کی پیدائش
گھٹ گیے دام دای مای کے
ماں کا رتبہ بدر سے قمر ہوا
جہاں بیٹوں کے پیدا ہونے پہ اپنے خزانوں کے منہ غریب غربا اور احباب، رشتہ داروں کے لیے کھول دیے جاتے ہیں وہیں بیٹی کی پیدائش پہ رونی بوتھی بنا کے کءی کءی دن تک سوگ منایا جاتا ہے ارے بیوقوفو عورت ہی تو اس دنیا کی سب سے بڑی رونق اور خزانہ حسن ہے عورت کے بغیر گھر، در، باغ باغیچے سب سونے ہیں مگر عورت کو گام گام پہ اتنے زیادہ مسائل درپیش ہیں کہ انہیں دایرہ تحریر میں لانا بھی نرا کار مشقت ہے اور پھر اس گونگے بہرے سماج کو سمجھانا تو جوے شیر لانے کے ہی مترادف ہے کہ عورتوں کے لیء بھی شخصی وقار، احترام اور حقوق اتنے ہی ضروری ہوتے ہیں جتنے مردوں کے لیے. یہ اور بات کہ مردوں کو تمام حقوق ٹرے میں رکھ کے ایک پیدایشی حق کی طرح پیش کیے جاتے ہیں اور خواتین ساری عمر اپنے حقوق کا کاسہ ہاتھوں میں لیے ہی خالی ہاتھ ہی قبر کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہیں.
لیکن درحقیقت عورت اتنی بڑی اور مقدم ہستی ہے کہ اسے ہر مذہب میں بہت ہی بلند مقام عطا فرمایا گیا. میری کتاب خواب ٹوٹ جاتے ہیں میں سے ایک نظم پیش خدمت ہے
بنت حوا
بنت حوا ہوں فخر ملت ہوں
اپنے آنگن کی میں تو کیاری ہوں
ایک مہکتی ہوی پھلواری ہوں
باب حرمت کی پاسداری ہوں
دوستی تیری سر آنکھوں پہ مرے
کہاں ہوں صرف جسم میں پیارے
میں تو احساس کی گل کاری ہوں
تیری تشکیل تیرے ہاتھوں میں
تیری تکمیل میرے ہاتھوں میں
تیری دنیا کا رخ روشن ہوں
مہکتے پھولوں کی پھلواری ہوں
ہوں تخیل کی انتہا پگلے
ایک مہکا ہوا جہاں پگلے
میں کہ ایک روح ہوں، بیداری ہوں
یہ عورت کا وہ مقام ہے جو ہمیں ہمارے پیارے رسول پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم نے بتایا اور عملاً کر کے بھی دکھایا. مگر ہمارے عہد بلکہ ہر عہد کی عورت کا رونا صدیوں سے ایک ہی ہے رونا کیا ہے آپ بھی سنییے
تمہیں اجازت نہیں ہے جاناں
کسی کے دل کا قرار ہونا
سکون ہونا، قرار ہونا
دھڑکتے دل کی بہار ہونا
کسی کی آنکھوں کا نور ہونا
کسی کے بھی دل میں پیار ہونا
تمہیں اجازت نہیں ہے جاناں
شعور ہونا، شعار ہونا
بس ایک ہی خول میں سمٹنا
نہ رابطوں میں وقار ہونا
نہ باعث افتخار ہونا
نہ نور ہونا نہ نار ہونا
نہ آرزوؤں کے جال بننا
نہ راگ بننا، نہ خواب بننا
تمہیں روایت کی پاسداری
میں بھسم ہونے کا تو حکم ہے
نہیں کہیں افتخار ہونا
علم کو ہاتھوں میں اپنے لے کر
نظر میں، قد میں وقار ہونا
کسی نظر پہ نثار ہونا
مہکتے پھولوں کا ہار ہونا
ہجوم میں اک قطار ہونا
بھنور میں رہنا تو خوب لیکن
نہیں کبھی اس کے پار ہونا
تمہیں اجازت نہیں ہے جاناں
یہ سن سن کے اور دیکھ دیکھ کے کان پک گیے کہ عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور حق تلفی کو عین عبادت سمجھ کے کیا جاتا رہا ہے چند ایک معمولی نوعیت کے حادثات جو عورتوں کو سدا ہی ایک خمیازے کی صورت میں بھگتنے پڑے ہیں ایک نظر ڈالیے گا
وراثت میں استحصال
رہن سہن کے ضابطوں میں امتیازی سلوک
تعلیم و تربیت کے ضابطوں میں واضح طور پر لڑکوں کو زیادہ مراعات دینا جبکہ لڑکیوں کی ذہانت کے باوجود انہیں پڑھای بیچ میں چھوڑ کر جلد از جلد اگلے گھر بھیجنے کی کرنا
جہیز دے کے گھر کی بیٹی پہ بہت احسان کیا جاتا ہے، بیٹی کی وراثت چھین کے پیکے گھر کے دروازے میں اس نمانی کو داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے ورنہ رشتہ داریاں ختم اتنے منحوس، تھوڑ دلے اور ظالم لوگ ہیں ہم گھر کی بہووں کو کم حیثیت کا جہیز لانے پہ جلا کر سسکنے کے لیے چھوڑ دینے والے، اپنی من پسند لڑکی کے کسی بھی قسم کے انکار پہ اس کے منہ پہ تیزاب گرا کے اسے پوری دنیا کے سامنے نشانہ عبرت بنا دینے والے
وہ جووے میں گھر کی عورتیں ہار آتے تھے ہم قتل، دیت اور لڑای جھگڑے نمٹانے کے لیے اپنی بیٹیوں کو دشمنوں کے اکھاڑے میں ڈال آتے ہیں
ستی بھی عورت ہی کو ہونا پڑتا ہے
جنسی زیادتی کا نشانہ بھی خواتین ہی بنتی ہیں
کام کی جگہوں پہ sexual harasement کا شکار بھی معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ خواتین ہی ہوتی ہیں.
ارے گھروں سے لیکر، سڑکوں، بازاروں، سکولوں، ہسپتالوں، ہوسٹلوں، پناہ گاہوں، دارالامانوںکونسی ایسی جگہ ہے جہاں بنت حوا محفوظ ہے ارے یہ مردوں کی حکمرانی میں روتا دھوتا سماج تو نہ ہی سپارہ پڑھنے جانے والی چار سالہ مریم کو معاف کرتا ہے نہ رات کی ڈیوتی کرتی ہوی ڈاکٹر رادھا کو اور نہ ہی قبر میں دفن ہونے والی اسی سالہ ماسی صبوراں کو ارے بے حیاو اپنی اپنی آنکھوں پہ حیا کے سیاہ کھوپے چڑھاو.
کبھی غیرت اور کبھی حسد مگر نشانہ ستم صرف اور صرف مظلوم بچیاں ہی بنتی ہیں کبھی ماہا کا شوہر شادی کے چھٹے دن صرف شک کی بنا پہ اس کا سر. دھڑ سے جدا کر کے مظلومیت کے رونے رونے لگ جاتا ہے اور کبھی زارا کی ڈاین ساس اور نند اس پہ بد چلنی کی تہمت لگا اسے اور اس کے پیٹ میں پلنے والے سات ماہ کے بچے کو کءی ٹکڑوں میں کاٹ کر رکھ دیتے ہیں.
اے حوا کی بیٹی
سدا تیری بولی لگای گءی
سدا تجھ پہ تہمت لگای گءی
سدا تیری گردن کو کاٹا گیا
بہت سے کچوکے لگاے گیے
بھلے سیج تیری سجای گءی
بخت میں سدا ہی جدای رہی
تو ایسے جہاں میں ستای گءی
نہ اپنی رہی نہ پرای رہی
دنیا کی تمام بیٹیوں کی خیر
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com
Leave a Reply