29 نومبر
لازوال گیتوں کے خالق فیاض ہاشمی کا یومِ وفات
معروف ترین اردو پاکستانی شاعر، نغمہ نگار اور لازوال گیتوں کے خالق فیاض ہاشمی 18 اگست 1920ءکو کولکتہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید محمد حسین ہاشمی دلگیر تھیٹر کے معروف ہدایتکار اور شاعر تھے اور اپنے زمانے کے مشہور تھیٹر گروپ مدن تھیٹر لمیٹڈ سے وابستہ تھے۔ فیاض ہاشمی نے نہایت کم عمری سے گرامو فون کمپنیوں سے وابستہ ہو کر ان کے لئے نغمہ نگاری شروع کردی تھی۔ 1956ء میں انہوں نے فلمی دنیا سے مستقل وابستگی اختیار کرلی۔ پاکستان میں بطور نغمہ نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ اور انوکھی اور آخری فلم دیوانے تیرے پیار کے تھی۔ انہوں نے جن مشہور فلموں کے نغمات تحریر کیے ان میں بیداری، سویرا، اولاد، سہیلی، رات کے راہی، پیغام، داستان، شبنم، ہزار داستان، دال میں کالا، دیور بھابھی، دل کے ٹکڑے، پیسے، چودھویں صدی، ظالم، گہرا داغ، صنم، توبہ، لاکھوں میں ایک، کون کسی کا، تقدیر، عالیہ، پھر صبح ہوگی، رشتہ ہے پیار کا، بہن بھائی، شریک حیات، عید مبارک، زمانہ کیا کہے گا، آشیانہ، بزدل، پازیب، نہلا پہ دہلا، لو ان جنگل، انجمن، رنگیلا، آوارہ، جاسوس، خدا اور محبت اور نشیمن کے نام سرفہرست ہیں۔
انہوں نے جو پہلا نغمہ لکھا وہ طلعت محمود نے 1941ء میں گایا۔ اس کے بعد طلعت محمود نے فیاض ہاشمی کا وہ گیت گایا جس نے انہیں عروج پر پہنچا دیا۔ یہ گیت تھا
تصویر تیری دل مرا بہلا نہ سکے گی
میں بات کروں گا تو یہ خاموش رہے گی
ان کے لکھے ہوئے گیتوں نے متعدد فنکاروں کو شہرتِ دوام بخشی اور بلاشبہ وہ گیت نگاری کے بادشاہ قرار پائے۔
ذرا یہ گیت بھی ملاحظہ کریں
آج جانے کی ضد نہ کرو
یونہی پہلو میں بیٹھے رہو
اسے سب سے پہلے حبیب ولی محمد اور پھر فریدہ خانم نے گایا۔
پاکستان کی بیشتر فلموں میں فیاض ہاشمی کے گیت ہوتے تھے اور ہر بڑا موسیقار یہ چاہتا تھا کہ فیاض ہاشمی اس کےلئے گیت لکھیں۔
ایک اور گیت ملاحظہ کریں
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
یہ گیت نامور گلوکار ایس بی جون کی شہرت کا باعث بنا۔
ان کے دیگر مشہور فلمی نغمات بھی آ ج تک زبان زد عام ہیں
چلو اچھا ہوا تم بھول گئے (گلوکارہ نور جہاں، فلم لاکھوں میں ایک)
قصہ غم میں تیرا نام نہ آنے دیں گے (گلو کار، مہدی حسن، فلم داستان)
یہ کاغذی پھول جیسے چہرے (گلو کار مہدی حسن، فلم دیور بھابھی)
نشان کوئی بھی نہ چھوڑا (گلوکار ،مہدی حسن، فلم نائلہ)
لٹ الجھی سلجھا جا رے بالم (گلوکارہ نور جہاں، فلم سوال)
ساتھی مجھے مل گیا (گلوکارہ ناہید اختر، فلم جاسوس)
ہمیں کوئی غم نہیں تھا غم عاشقی سے پہلے (گلوکار مہدی حسن / مالا، فلم شب بخیر)
رات سلونی آئی (گلوکارہ ناہید نیازی، فلم زمانہ کیا کہے گا)
فیاض ہاشمی کے لکھے ملی نغمات نے بھی دھوم مچائی
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران،
اے قائد اعظمؒ تیرا احسان ہے احسان
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
سورج کرے سلام، چندا کرے سلام۔
انہوں نے 1968ء میں فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ کا یہ لازوال گیت ’’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘‘ لکھنے پر نگار ایوارڈ حاصل کیا۔ اس کے علاوہ تین گریجویٹ ایوارڈ بھی حاصل کئے۔
انہوں نے مجموعی طور پر 122 فلموں میں نغمہ نگاری کی، 482 فلمی گیت تحریر کیے اور 24 فلموں کی کہانی اور مکالمے تحریر کیے۔فیاض ہاشمی 29نومبر 2011ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔
Leave a Reply