تازہ ترین / Latest
  Monday, December 23rd 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

کہنے کو تو میرے محافظ تھے

Articles , Snippets , / Monday, December 9th, 2024

محافظ وہ ہوتا ہے جو کسی کے جان و مال اور عزت و آبرو کا رکھوالا ہوتا ہے اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے اپنی جان کی بھی پروا نہیں کرتا. اور سب سے بہترین محافظ اللہ پاک کی ذات ہے جو انسان کی حفاظت مادر شکم سے لیکر پیدا ہونے تک اور پیدا ہونے سے لیکر زندگی کی آخری سانسوں تک انسان کی بلا تفریق مذہب و حیثیت ماں جیسی بے لوث محبت نہ صرف ہم پہ نچھاور کرتا ہے بلکہ حفاظت بھی کرتا ہے اور اس کی حفاظت کے تو کیا ہی کہنے وہ کنویں میں بھائیوں کے حسد کا شکار ہونے والے یوسف کا محافظ، وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھڑکتی آگ کے بے رحم شعلوں سے بچانے والا محافظ
ہر خیر کو ہر شر سے پناہ میں لینے والا محافظ، وہ ہرچرند، پرند، نباتات، جمادات، زمین و آسمان، کہکشاوں کا محافظ اور دھرتی کے تمام نظاروں کا محافظ
اللہ ہی حافظ ہے
خالق کاینات
خالق جن و انس
راہبر کارواں
مالک کہکشاں
صبح اور شام میں
قہر اور کہرام میں
بے بسی کے کرب میں
آنسوؤں میں طرب میں
ماں کے پیٹ میں پونم
دنیا ے حرم میں
رب ہی محافظ ہے
سانسوں کی روانی کا
زندگی کے چلن کا
نباتات و جمادات کا
پھیلے ہوے جہان کا
زمین و آسمان کا
تیری میری شان کا
رب ہی محافظ ہے
رب ہی محافظ تھا
تو وہ جو سمندر کی گہرائیوں میں وہیل اورشارک مچھلیوں سے لیکر سٹار فش اور سٹار فش سے لیکر الجی، پروٹوزوا تک کو رزق فراہم کرتا ہے وہ جو دستر شاہانہ سے لقمہ لقمہ مانگ کرکھانے والے ہر کس و ناکس کا پالن ہار ہے وہ جو تتلیوں اور جگنوؤں، قوس قزح اور کہکشاوں، قلانچیں بھرتی ہوی ہرنیوں، ہرنی جیسی آنکھوں اور صراحی دار خوبصورت خواتین، تمام مخلوقات کا تخلیق کار ہی نہیں محافظ بھی ہے، اور میں صدقے اس محافظ کے، جس کے بارے میں کسی صوفی شاعر نے کیا ہی خوب کہ
مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھول لانا لاوے یا نہ لاوے
تو سچ تو یہ ہے کہ وہ مالک اتنا رحمان ہے اتنا غفور و رحیم ہے کہ پھل پھول ہی نہیں لگاتا وہ اس کاینات میں اگنے والے تمام پھلوں اور پھولوں کا محافظ و نگہبان بھی ہے.
اور پھر بات آتی ہے ہر شخص ہر انسان کی ذاتی حفاظت اور نگہبانی کی تو جونہی کوئی بچہ شکم مادر میں پورے نو ماہ کے طویل سفر اور ماں کی جان لیوا اور طویل المیعاد دردزہ کے عذاب کو اپنی جان پہ برداشت کرنے کے بعد نومولود کو اس دنیا میں لا چھوڑتی ہے اور پھر اپنی آخری سانسوں تک اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اچھے برے کی ذمہ داری ہی نہیں لیتی اپنی اولاد کا ہر اچھا برا بھی اپنی جان پہ. برداشت کرتی ہے، سہتی ہے ، ہاں وہی ماں،وہی عظیم ماں جو دس بارہ بچوں کو ایمانداری سے، خلوص کی چاشنی سے، ساری عمر اپنے منہ کا نوالہ بھی نکال نکال کے کھلاتی رہتی ہے اور آخری عمر میں دس بارہ بچےمل کے بھی ایک ماں کو نہیں سمبھال سکتے اور اسے اولڈ ہوم کی بے نیل و نامراد شاہراوں میں در بدر بھٹکنے کو چھوڑ آتے ہیں.
اولڈ ہومز
جاے عبرت ہے اک تماشا ہے
زندگی وخت ہے… سیاپا ہے
اپنے پیاروں کو چھوڑ آتے ہیں
اپنی سب جان یوں چھڑاتے ہیں
ہاے وہ گھر میں پالتے تھے ہمیں
ہم اولڈ ہوم چھوڑ آتے ہیں
تو باوجود رب کائنات کے اس واضح اور جامع فرمان کہ کے جب والدین بوڑھے ہو جایں تو انھیں اف تک نہ کہو ہم اللہ کے غضب کو بار بار للکار کے اپنے گناہوں میں اضافے کے مرتکب ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ اللہ نے نومولود اور ضعیف دونوں ہی کی حفاظت کے لیے ہمیں واضح طور پہ درس دیا.
اور اپنی اولاد کو فاقے کے ڈر سے قتل مت کرو.
اکثر خواتین میرے پاس اس مسئلے کے ساتھ بھی آتی ہیں کہ ڈاکٹر صاحبہ ساتواں یا آٹھواں بچہ ہے گھر میں غربت ہے ہم بچہ afford نہیں کر سکتے لہذا اس بچے کو ضائع کرنے کے لیے ہماری کچھ مدد فرمائیں میں کہتی ہوں وہی پالن ہار ہے لہذا غربت کے ڈر سے اپنے بچوں کو ناحق قتل مت کرو
لہذا محافظ کو خبر تھی خوب
سدا کمزور ہاریں گے
اپنے، اپنوں کو واریں گے
لہذا کہ دیا رب نے
کہ بچوں کو بھی نہ مارو
ضعیفوں سے بھی کرنا پیار
گیے بدبخت سارے ہار
تو لمحہ فکریہ اور وقت زوال ہے کہ ہم اپنی عیاشیوں میں پور پور ڈوب گیے اور محافظ کے احکامات کو پس پشت ڈال بیٹھے بے طرح سے ہار بیٹھے.
اور پھر بچے کے والدین اور بہن بھائیوں کے بعد گھر، در، کھڑکیاں اور چھت ہمارے محافظ ہوتے ہیں.
میرے نگہبان
میرے محل چوبارے
میرے سارے پیارے
میرے نگہبان تھے
مجھ پہ مہربان تھے
دنیا، دنیا کے رسم و رواج، دنیا کے رنگ برنگے بھانت بھانت کے لوگوں میں رہنا اور ان سے بچ بچا کے اپنے گھر کے محافظ درو دیوار کے اندر بخیر و عافیت آ جانا بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے میری ماں اور دادی بچوں کے سکول کالج جانے کے بعد سے ان کی وآپسی تک طاق ہی سے لگ کے بچوں کی خیر و عافیت کی دعائیں کرتی رہتی تھیں پھر ہمارے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ہمارے محافظ ہمارے اساتذہ اور پرنسپلز ہوتے ہیں، یمارے دفاتر، ہسپتالوں میں بھی اداروں کے سربراہان ہی کو ہر روح اور ذی روح کے امن و ایمان کا محافظ سمجھا جاتا ہے ہوسٹلوں کے وارڈنز، جیل خانوں کے جیلرز، مدرسوں کے معلم، فیکٹریوں کے مالکان، ادبی دنیا کے سر براہان، فلمی دنیا کے کرتا دھرتا، یہ تمام محافظوں کی کیٹگری میں شمار ہوتے ہیں جیسے گھر کے ملازمین گھر کی حفاظت کے ذمہ دار ہوتے ہیں یا ڈے کییر سنٹرز میں کام کاج کرنے والی خواتین اپنے بچے بے فکر ہو کے چھوڑ جاتی ہیں یا پھر کچھ گھروں میں گھر کے بڑے اور بزرگ حفاظت کا یہ کام مروت اور خلوص کی وجہ سے بنا ماتھے پہ شکن ڈالے نبھا تے ہیں اور پھر گلی، محلے، کوچے، قصبےاور شہر کی حفاظت کے لیے حکومتی سطح پر جس شعبے کو خفاظت کی ذمہ داری سونپی
جاتی ہے اسے عرف عام میں پولیس کہا جاتا ہے پولیس ہر سطح پر امن و ایمان رکھنے اور شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے معمور کی جاتی ہے تاکہ کاروبار دنیا کے تمام معاملات احسن طریقے سے چلتے رہیں تو کیا واقعی میں ہی ایسا ہے کیا تمام معاشرتی مسائل، لڑای جھگڑے، چوریاں، دنگا فساد،ناحق قتل و غارت، فراڈ، بے ایمانیاں سب کچھ اس دنیا سے ختم ہو چکا ہے؟ عنقریب ختم ہونے والا ہے؟ نہیں ناں تو سمجھ لیجیے کہ یہ محافظ تو بس نام کے ہی ہیں چوروں، ڈاکوؤں، سمگلرز، منشیات فروشوں بڑے بڑے امیر زادوں اور ان کے گناہوں کی پشت پناہی کرنے والے یہ ہی حضرات ہیں تو پھر میرے ملک کے نوجوان کیوں نہ اپنا دیس چھوڑ کر پراے دیسوں کے رت جگوں میں سکون ڈھونڈیں. اللہ پاک سے اس دعا کے ساتھ کہ مالک تو تو کل عالم کا محافظ ہے تھوڑی سی ہدایت ہمارے ان محافظوں کو بھی دے دے آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International