پِٹ کے آئے ہو اپنے سالے سے
تبصرہ کوئی اس حوالے سے
سننے آئے ہیں لوگ نثری نظم
کچھ سنا دیجیے مقالے سے
جو چُرائے مری غزل یارب
بھر دے اس کی زبان چھالے سے
میں بھی ڈرتا ہوں ننھے بچوں سا
چیخ کر شعر پڑھنے والے سے
اک ذرا سرچ کر لو گوگل پر
جب غزل لو کسی رسالے سے
بیویاں حکمراں ہیں شوہر پر
کنجیاں کھُل رہی ہیں تالے سے
اُن کو دیکھا بغیر میکپ کے
خوف کھانے لگا اجالے سے
کیوں سمجھتے ہو بھانڈ کو شاعر
کام سوئی کا مت لو بھالے سے
کیوں صفائی پہ دے رہے ہو دھیان
چاے کیسے پکے گی نالے سے
بات کی پھر کوئی حماقت کی
دھیان بھٹکا دیا گھوٹالے سے
چینی مشروم کھا رہے ہو کیا
گورے ہونے لگے ہو کالے سے
دیکھ جاتے ہیں اب کہاں راغبؔ
گھوم کر آگئے ہمالے سے
افتخار راغبؔ
ریاض، سعودی عرب
Leave a Reply