نازپروین
دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی اہلیان پشاور کے دل انجانے دکھ سے بوجھل ہو جاتے ہیں۔ 16 دسمبر 2014 میں رونما ہونے والا سانحہ اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ ایک بار پھر سب کے دماغوں اور دلوں میں تازہ ہو جاتا ہے ۔16 دسمبر کے طلوع ہوتے سورج کی شعاؤوں میں خون کی سرخی جھلکتی ہے ۔ہواؤوں میں معصوموں کی دلخراش چیخیں سنائی دیتی ہیں ۔فضاء میں سوگ طاری ہوتا ہے وہ شہزادے ،چاند کی مانند ،کھلتے پھول جو اگر زندہ ہوتے تو آج دس سال کے بعد شیر جوان اپنی ماؤوں کی آنکھ کا تارہ ہوتے ۔لیکن نہ صرف ان کی مائیں بلکہ ہر ماں اس دن ایک چپ سادھے دل میں اٹھتے طوفانوں کو برداشت کرتی ہے ۔کہتے ہیں کہ جب جوانوں کے کاندھوں پر بزرگوں کے جنازے ہوں تو اسے زمانہ امن کہتے ہیں جب بوڑھے مل کر جوانوں کے لاشے اٹھائیں تو وہ جنگ کا زمانہ ہوتا ہے لیکن جب بڑی تعداد میں معصوم بچے شہید کردیئے جائیں تو ایسے سانحے کو کس نام سے پکاریں گے؟ تاریخ اس پر چپ ہے۔
16 دسمبر 2014 کا خون آشام دن پاکستانی تاریخ کا وہ ناقابلِ فراموش دن ہے جس نے طول و ارض میں ہر حساس دل کو تڑپا دیا۔ اس روز جب معصوم بچوں کی نورانی انگلیاں کتابوں سے روشنی چن رہی تھیں، جب جماعتوں میں علم کے متلاشی سیراب ہورہے تھے کہ کوئی ساڑھے دس بجے 7 دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور میں داخل ہوکر کمیونٹی ہال کا رخ کیا اور اندر داخل ہوئے، ان کے خود کار ہتھیاروں کی آہنی نالوں سے شعلے ابھرے اور سینکڑوں بچے خاک و خون میں تڑپ کر اس دنیا سے بہتر جگہ جاپہنچے ۔ واقعے کی بریکنگ نیوز نشر ہوتے ہی والدین دیوانہ وار اسکول کی جانب دوڑے اور شکستہ دلوں کے ساتھ باہر جمع ہونے لگے۔
والدین اور بچوں کے لواحقین کے کپکپاتے ہونٹوں پہ یا اللہ رحم کی صدائیں تھیں، بعض کے دل ڈوب رہے تھے اور اندر موجود خوفناک فائرنگ کی آوازوں سے وہ دہل رہے تھے۔ اس روز پاکستان کے افق پر غم کی سیاہ چادر تن گئی جس کے عین قلب میں اے پی ایس شہدا کا خون چمک رہا تھا۔انسانی تاریخ میں بچوں کے اس ہولناک قتل نے پوری دنیا کو رلا دیا اور عالمی میڈیا نے آرمی پبلک اسکول سانحے کو اپنے اپنے انداز میں پیش کیا۔ لیکن موت وزیست کے اس معرکے میں اسکول پرنسپل سمیت ننھے بچوں نے بھی اپنے حواس برقرار رکھے اور عزم و ہمت کی وہ عظیم داستانیں رقم کیں جو ہمیشہ ہمارے دلوں کو گرماتی رہیں گی۔ ایک بچہ یکایک علامہ اقبال کا شاہین بنا اور اس نے اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیے درجن بھر گولیاں اپنے پھول سے بدن پر برداشت کیں ۔ اسکول پرنسپل طاہرہ قاضی نے دہشت گردوں کو للکارا اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ وہ ان بچوں کی ماں ہے اور دہشت گردوں کو للکارتے ہوئے کہا کہ وہ بچوں کو چھوڑ دیں۔ ’تم بچوں کو کیوں چھپارہی ہو؟‘ دہشت گردوں کا آرمی پبلک اسکول کی پرنسپل سے سوال۔’مجھ سے بات کرو، میں ان کی ماں ہوں،‘ اے پی ایس کی 64 سالہ پرنسپل نے خون کے پیاسوں کو جواب دیا اور ان کے لہجے میں نہ کپکپاہٹ تھی نہ الفاظ میں خوف۔ بعض عینی شاہدین نے بتایا کہ 16 دسمبر کے قیامت خیز واقعے میں طاہرہ قاضی بہت آسانی سے اپنی جان بچاسکتی تھیں لیکن وہ ان کے سامنے ڈٹ گئیں اور آخری دم تک بچوں کی جان بچانے کے لیے لڑتی رہیں، طاہرہ قاضی کی جرات اور شہادت کو ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔ آرمی پبلک اسکول کے ایک طالب علم فہد نے بہادری کی جو داستان رقم کی ہے وہ شاید کتابوں بھی نہ ملے گی۔ جوں ہی حملہ آور قتلِ عام کےلیے داخل ہوئے اس نے دروازہ کھول کر اپنے ہم جماعتوں کو باہر نکال دیا اور خود گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ ایک اور طالب علم نے خود کو اپنے ساتھیوں پر گراکر پھیلالیا اور 14 گولیاں کھا کر راہِ شہادت کی سمت گیا۔
آپ کی شہادت ہمیشہ ہمارے دل میں تازہ رہے گی لیکن اب تک آپ کی شہادت کے دن کو کسی نام سے منسوب کرنے کا کوئی فیصلہ کیوں نہیں کیا گیا۔ میرے خیال میں 16 دسمبر کو ’ یومِ شہیدِ ان امن‘ قرار دیا جاسکتا ہے یا ’ یومِ شہدائے نونہالانِ پاکستان‘۔
ان شہیدوں میں ایک ننھی پری خولہ بھی تھیں جس کا اسکول میں پہلا روز تھا اور وہ اے پی ایس کی واحد بچی تھی جس کی عمر سب سے کم تھی۔ جو شہید ہوکر راہِ عدم پر روانہ ہوگئ۔ اے عظیم شہیدو شہید کی جو موت ہے وہی تو قوم کی حیات ہے اور ہماری رگوں میں تمہارا لہودوڑ کر اب زندگی کی بنیاد بنا ہوا ہے۔ سلام اے شہیدانِ وفا ۔
قوموں کی زندگی میں ایسے دلخراش حادثات ہمیشہ فیصلہ کن قوت فراہم کرتے ہیں۔ ایسے سانحات کے دکھ کو عمل کی قوت میں بدلا جاتا ہے تاکہ آگے کی راہ ہموار ہو اور اے پی ایس شہدا نے ہمیں یہ راہ دکھلائی ہے کیونکہ وہ علم کے شیدائی، عمل کے مجاہد اور شہیدانِ ملت تھے۔اس موقع پر سب سے درخواست بھی ہے کہ اس سانحے کے شہداء کے لواحقین ہم سب کی خصوصی محبت اور احترام کے مستحق ہیں ۔آج کے دن ان کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں ۔اس موقع پر کچھ لوگ، چینل ان کی دل آزاری کا باعث بنتے ہیں ۔خدارا ان سے خصوصی محبت سے پیش آئیں ۔ان کا نقطہ نظر صبر وتحمل سے سنیں آج کے دن کو ان شہداء سے وابستہ کر دیں ہر سکول ،تعلیمی ادارے میں خصوصی دعائیہ تقاریب منعقد کریں لواحقین کو بلائیں ،عزت و احترام دیں ان سے اپنے بچوں کی یادیں سنیں ان کے غم میں شریک ہوں ۔آج ان کی برسی پر ہمارے اشک رواں ہیں اور لبوں پر دعا ہے کہ اللہ دوبارہ ایسا سانحہ نہ برپا ہو ماؤوں کی گود ہمیشہ بھری رہے ۔اس سانحے میں کچھ بچے جان لیوا زخموں کے باوجود زندہ بچ گئے ان میں ایک احمد نواز بھی ہے ۔احمد نواز اور ان کے بھائی حارث نواز کی کہانی آج بھی دلوں کو جھنجھوڑ دیتی ہےاس حملے میں حارث نواز شہید ہو گئے تھے جبکہ احمد نواز شدید زخمی ہوئے تھےاحمد نواز کے زخمی ہونے اور ان کے بھائی کے شہید ہونے کے بعد احمد نواز کے والد محمد نواز خان نے ہسپتال میں موجود ڈاکٹر سے سنا کہ احمد نواز کی حالت بہت نازک ہے اور انہیں بیرون ملک علاج کی ضرورت ہےتا ہم محمد نواز کے پاس وسائل کی کمی تھی ۔لیکن پھر بھی انہوں نے احمد کے علاج کے لیے بھرپور کوشش کی۔محمد نواز نے شدید احتجاج کا فیصلہ کیا کہ اگر ان کے بیٹے کو علاج کے لیے باہر نہیں بھیجا گیا تو وہ وزیراعظم ہاؤس کے سامنے احتجاج کریں گےان کی اس فریاد پر پوری قوم اور عالمی برادری نے توجہ دی ۔اس وقت کی وفاقی حکومت نے فوری طور پر عمل کیا اور وزیراعظم محمد نواز شریف نے احمد نواز کے علاج کے لیےدو لاکھ پاؤنڈ برطانیہ کے ہسپتال میں جمع کروا دیے مسلسل علاج معالجے کے بعد احمد نواز اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے رفتہ رفتہ روبصحت ہوئے انہوں نے سانحے سے متاثر ہونے کے بعد ہمت نہ ہاری بلکہ سینہ تان کر حالات کا مقابلہ کیا برطانیہ میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ جہاں انہیں آکسفورڈ یونین کا صدر بھی منتخب کیا گیا۔ مسلسل جدوجہد اورعالمی سطح پر نوجوانوں کو با اختیار بنانے کی خدمات کے صلے میں احمد نواز کو برطانیہ کے بادشاہ کنگ چارلس نےانہیں برٹش ایمپائر میڈل سے نوازا جو برطانیہ میں دیے جانے والے اعلی ترین اعزازات میں سے ایک ہے ۔اس موقع پر احمد نواز نے کہا کہ یہ ایوارڈ میرے بے پایاں عزم اور نوجوانوں کو عالمی سطح پر با اختیار بنانے کی خدمات کا اعتراف ہے میرا عزم مزید مضبوط ہوا ہے اور میں مستقبل میں مزید نوجوانوں کو متاثر اور با اختیار بناتا رہوں گا۔انہوں نے یہ ایوارڈ اے پی ایس کے شہداء اور اپنے ہم وطنوں کے نام کیا۔
آج 10 سال گزرنے کے باوجود اس سانحے کے شہداء کی یادیں ہمارے دلوں میں ویسے ہی تروتازہ ہیں ان شہداء کے بچوں کے بہت سے والدین کے ساتھ ذاتی رابطہ ہے اس سانحے کے متاثرین کے والدین نے ایک تنظیم بنائی ہوئی ہے وہ ہر شہید کی سالگرہ پورے اہتمام سے مناتے ہیں اور میز پر اس بچے کی تصویر سجاتے ہیں ۔وہ جس بھی تقریب یا مظاہرے میں شریک ہوں سب کے ہاتھوں میں ان ننھے فرشتوں کی تصاویر سجی ہوتی ہیں ۔جو یہ پیغام دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ چاہے 10 سال گزر جائیں یا 20 سال ہماری یادیں اسی طرح سب کے سینوں میں امر رہیں گی۔
۔محمد بلال اعظم کا اس موقع پر دل کو چھوتا کلام حاضر ہے
“پھر وہی صبح کہ جس صبح نے مانگا آ کر
تنِ مجروح سے صد چاک لبادے کا خراج
پھر وہی شام کہ جس شام کے دامن میں ہے
میرے لفظوں کی اداسی، میری آنکھوں کا مزاج
پھر وہی رنگ کہ جس رنگ سے اوراقِ حیات
جب لہو رنگ ہوئے، آنکھ بھی کھل کر برسی
پھر وہی ابرِ عداوت کی گھٹا، ربِ دعا!
کیوں مرے دیس کے بچوں پہ ہی اکثر برسی
میرے بچوں کی شہادت یہ گواہی دے گی
ہم نے شہ رگ کا لہو دے کے نکھارے ہیں نجوم
میرے بچوں کی شہادت نے یہ پیغام دیا
تازہ تر ہم سے ہوئیں آج شجاعت کی رسوم
پھر مرے دیس پہ اترا ہے یہ پرنم موسم
در و دیوار پہ صدیوں کی تھکن طاری ہے
عرصۂ ظلم کی ساعت کو تو صدیاں بیتیں
دھوپ کے دشت میں وحشت کا سفر جاری ہے
میں نے دیکھے ہیں کئی شمس و قمر آبلہ پا
میری آنکھوں نے سمیٹا ہے دھواں خوابوں کا
میرے بچوں کے وہ بکھرے ہوئے لاشے چننے
قافلہ اترا مرے شہر پہ مہتابوں کا
حوصلہ لاؤں کہاں سے کہ وہ مائیں دیکھوں
درد اتنا ہے کہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتا ہوں
آنچ اتنی ہے کہ یخ بستہ نفس بھی پگھلا
لفظ ایسے ہیں کہ میں سہہ بھی نہیں سکتا ہوں
شامِ وحشت کی طوالت سے بھی خوف آتا ہے
اب قلم، کاپی، کتابوں سے بھی ڈر لگتا ہے
میں نے قبروں کی رداؤں پہ بھی دیکھا ہے انہیں
ماں! مجھے سرخ گلابوں سے بھی ڈر لگتا ہے
Leave a Reply