میں سبحان گل ولد نثار گل ہوں. ہوں کیا جی بس اس دنیا میں سانسیں لیتی ہوی تقریباً سات ارب لاشوں میں سے میں بھی ایک زندہ لاش ہوں، جی ہاں زندہ لاش، سانسیں لیتی 8ہوی، چلتی پھرتی ہوی، کھاتی پیتی ہوی، دو اوردو، دو سو اور کبھی کبھار دو اور دو کو دو ہزار کرتی ہوی، دنیا کی سیاست میں پور پور ڈوبی ہوی بلکہ لتھڑی ہوی لاش ہوں اور جتنا جھوٹ میں بولتا ہوں، جتنی رشوت میں لیتا ہوں جتنا بڑا کرتوتیا اور لعنتیہ میں بذات خود ہوں میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ہاں رات کو جب اندھیرے کی چادر چار سو پھیل جاتی ہے لوگ باگ تھک ہار کے بستروں پہ بے خبر اور بے سدھ موت جیسی نیند اوڑھ لیتے ہیں میں اس وقت بھی سو نہیں سکتا نیند میری آنکھوں سے کوسوں میل دور ایک ہیولے کی مانند میرا منہ چڑاتی ہے مجھے بے سبب ستاتی ہے لیکن بے سبب نہیں یہ بے سکونی، یہ بے خوابی ان ماوں، بہنوں، بیٹیوں اور بیٹوں کی آہیں اور بد دعائیں ہیں جو مجھے چین سے سونے بھی. نہیں دیتیں. کیا کروں معمولی درجے کا طالب علم تھا رو دھو کے میٹرک ہی کر پایا تھا کہ گھر کی ساری ذمہ داری میرے ناتواں کندھوں پہ ڈال دی گءی،ہاں ایک سترہ اٹھارہ سالہ نوجوان جسے زندگی کی کٹھنایوں کا کچھ اندازہ نہ تھا خیر مرتا کیا نہ کے مصداق مجھے یہ ذمہ داری لینی ہی پڑی اکلوتا بیٹا، چار بہنیں، والدین، بیماریاں، آنے جانے، مرنے جیونے، بھوک بھوک کی دھاڑیں مارتا ہوا پاپی پیٹ ماں کے سارے زیورات ایک ایک کر کے بک چکے تھے ایک نولکھا بچا تھا اسے بھی میری پولیس میں نوکری کے لیے بیچ دیا گیا، آٹھ لاکھ رشوت دے کے مجھے یہ پیٹی اور پولیس کی وردی ہی نہیں ملی مجھے مجبوراور بےکس عوام کو جی بھر کے لوٹنے کا بھی باقاعدہ لائیسنس مل گیا ارے ٹھیکہ جی ٹھیکہ ایف اے کی ڈگری بھی چند ہزاروں میں خرید لی گءی، اور پولیس کی آسامیاں بھی باقاعدہ اخبار میں اشتہار کی صورت میں چھپوائی گییں اور بدھو، بیوقوف، پڑھاکو، رٹو طوطے جو پیدا ہوتے ہی اپنا جینا مرنا تیاگ کے صرف اور صرف کتابوں کے ہو کر رہ جاتے ہیں وہ کتابیں ہی پڑھتے رہ گیے جی ہاں مجھے کاشو یاد آ گیا میرا چچیرا بھای نہ اسے سردیوں میں گرم کپڑے نصیب ہوتے تھے نہ گرمیوں میں ٹھنڈا پانی وہ دسمبر کی سرد برفانی راتوں میں ٹھٹھرتے ہوے بھی ساری ساری رات درسی کتابوں کو رٹے گھوٹے لگاتا رہتا تھا ہم خواہ مخواہ میں ہی اسے دیکھ کے ملول ہوتے تھے وہ بیچارہ پڑھ پڑھ کے بھلے ایم فل بھی کر گیا مگر لگاتا تو دہی بھلے کی ریڑھی ہی ہے ناں اور مجھے دیکھیں میں تو شاید صحیح طریقے سے چھٹی کی درخواست بھی نہ لکھ پاوں مگر اس اندھیر نگری اور چوپٹ راج والے دیس میں میری چالاکی، حاضر دماغی اور میری ماں کا نو لکھا کام آ گیا اور نوکری کے نام پہ اشتہار بازی، انٹرویو، دنیا دکھانے کو سب کچھ ہوا مگر نوکریاں تو ہر کام سے پہلے ہی بک چکی تھیں.
تو میں جب پولیس کی وردی پہن کر پہلے دن اپنے گھر سے کام پہ نکلا تو محلے والوں پہ ہی میری دھاک اس طریقے سے بیٹھ گءی کہ سب مجھے جھک جھک کے سلام کرنے لگے. اور اس پل مجھے واقعی میں محسوس ہوا کہ وردی کی طاقت کیا ہوتی ہے
اور سچی بات ہے میں نے اپنی وردی اور عہدے کو جتنا میں نے کیش کیا کوئی عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا ناجایز قبضے، قتل و غارت کی وارداتوں میں انی کمای، اور چوری ڈاکے تو ہوتے ہی ہماری پشت پناہی میں ہیں. اور چوری ڈاکے کیا کوئی ایسا جرم بتائیں جو ہمارے محکمے کی پشت پناہی میں نہ ہوتا ہو. ہم ہیں تو جرایم کی دنیا زندہ ہے اور ریے گی دراصل ہم ہی تو جرایم کی اکیڈیمیاں ہیں مجھے لکھتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ لامحالہ ہم ہی معاشرے کا وہ ناسور ہیں جو معصوم اور شریف شہریوں کو جرایم کی اندھی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں.
بھولے بھٹکے یا پیٹ کی بھوک کے ہاتھوں مجبور یو کے روٹی چوری کرنے والے کو میں نے چوری کی وہ ظالم سزائیں دیں کہ جیل سے چھوٹنے پہ وہ اتبا بے حس، ظالم اور غنڈہ بن چکا تھا کہ پھر اس نے کسی کو معاف نہیں کیا تو چونکہ میں اس کا استاد ٹھہرا تو اس کے سارے گناہ میرے ہوے ناں. اسی طرح گاوں کے ایک ہاری کی بیٹی اپنے عاشق کے کہنےپہ گھر چھوڑ گءی عاشق دو دن بعد ایک ہوٹل میں لاوارث چھوڑ کے نو دو گیارہ ہوگیا
میری سربراہی میں چھاپا مارا گیا اس لڑکی کو تھانے لایا گیا اس کا چونکہ کوئی والی وارث نہ تھا تو ہم نے اس کی عزت کی خوب دھجیاں بکھیریں اور پھر اسے کوٹھے پہ بیچ دیا آج کل وہ خود نایکہ بن کے کوٹھا چلا رہی ہے مجھے میری ماں بچپن میں اکثر اس جج کا قصہ سناتی تھی جس نے روٹی چرانے والے لڑکے کی کتھا سن کے معاشرے، ریاست، دوکاندار اور عدلیہ کو قصور وار ٹھہراتے ہوے سب کو جرمانہ کر کے، جرمانے کی رقم اس لڑکے کے حوالے کر دی تھی جو اپنی بیمار ماں کی بیمار پرسی کرتے ہوئے نوکری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا تھا اور پھر پیٹ کی بھوک کے ہاتھوں مجبوری مجبور ہو کے روٹی چرانے پہ مجبور ہو گیا تھا اور اشرافیہ نے اسے چور بنا کے نشانہ عبرت بنانے کی کوشش کی مگر وہ اللہ کے کرم اور جج کی منصفی سے بچ گیا مگر میں اتنا خبیث ہوں کہ معصومیت کو شیطانوں میں بدل بدل کے میرا دل پتھر اور آنکھیں مردہ ہو چکی ہیں وہ جو لکھا ہوا ہے ناں کہ وہ اندھے ہیں، گونگے ہیں، بہرے ہیں تو یہ مجھ پہ صادق آتا ہے نہ مجھے اپنی دادی کی تعلیمات یاد رہیں نہ والدہ کی اور میں شیطان کی پیروی کرتے ہوئے درندہ ہی ہو گیا نہ مجھے بہنوں کی حرمت یاد رہی نہ اپنی بیٹیوں کی معصومیت اور میں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کرتا بھی رہا اور ان کا محافظ بھی بنا رہا کتنا ظالم تھا ناں میں؟؟؟؟
اب تو پچپن سالہ بڈھا ہو چکا ہوں کءی بیماریوں نے میرے جسم میں اپنا گھر بنا رکھا ہے بیوی کینسر کی مریضہ ہے سچ بتاوں آپ سب کو جس گھر میں حرام کا پیسہ آتا ہے ناں بیماریاں اس گھر میں اپنا مسکن بنا لیتی ہیں، میری بیٹی کالج پڑھنے گءی تھی وآپس نہیں آی میں تھانیدار ہونے کے باوجود اسے بازیاب کروانے میں ناکام ہو چکا ہوں اور لوگ میری پیٹھ پیچھے نہیں میرے سامنے برملا کہتے ہیں کہ تھانیدار کی بیٹی اپنے کسی یار کے ساتھ بھاگ گءی ہے یہی ہوتی ہے ناں مکافات عمل کی چکی
مکافات عمل کی چکی
سبق بھی خوب دیتی ہے
درس بھی خوب دیتی ہے
بہت اونچا اڑاتی ہے
بہت نیچے گراتی ہے
نتیجہ جو بھی دیتی ہے
بہت بے لوث دیتی ہے
سبق ایسا سکھاتی ہے
یہ دنیا کو دکھاتی ہے
کءی فرعون لے ڈوبی
کءی نمرود جاں ہارے
نہ اس دوارے، نہ اس دوارے
تو ایسا ہی کچھ مجھ سبحان گل ولد قربان گل کے ساتھ ہوا، تجوریاں پیسوں سے بھری، بڑا سا کءی میلوں پہ پھیلا ہوا محل نما گھر، پورچ میں. رسیڈیز سے لیکر فارچونر تک ہر گاڑی کھڑی ہوی تو کیا کمی ہے جو مجھے پوری دنیا کے سامنے نشانہ عبرت بنا گءی ٹھہریے میں آپ کا بتاتا ہوں میں نے کءی نوجوانوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا تھا ناں وہ بیچارے اپنی پڑھائی میں مصروف ہوتے تھے آگے سے آگے بڑھنے کے لیے بے تاب ہوتے تھے اور ان پہ جھوٹے سچے ڈرگز کے مقدمات بنا کے ان یونیورسٹیوں کے پڑھاکو کیڑوں کو جیل خانوں میں ذلیل و خوار کرواتا رہتا تھا نہ مجھ پہ ان بیچاروں کی آہ و فغاں اثر ڈالتی تھی نہ ان کے والدین کی اور میں اپنی اسی آکڑ میں یہ بھول بیٹھا کہ نظام قدرت کو چلانے والا جب چاہے جسے چاہے زندگی دے، جب چاہے جسے چاہے عزت دے اور جب چاہے جسے چاہے دولت دے تو پھر ایک لمبے دور فرعونیت کے بعد میرا یوم حساب تو ہونا ہی تھا ناں. بیٹی بھاگ گءی بیٹے منشیات کے ایک بڑے کیس میں یوں ملوث ہوے کہ میرا قارون کا خزانہ بھی انھیں نہ بچا سکا وہ اپنی عمر قید جیل میں کاٹ رہے ہیں اور میں اپنے اس جیل نما گھر میں تو پیغام آپ سب کو یہی دوں گا کہ خدارا اپنے اچھے وقت میں ان لوگوں کا خیال ضرور رکھیے گا جن کا برا وقت انھیں خون کے آنسو رلا رہا ہوتا ہے اور وہ کہیں نہ کہیں آپ کے در پہ آ کے آپ سے رحم کے گلبگار ہوتے ہیں
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureen doctorpunnam@gmail.com
Leave a Reply