مرے کانوں میں چیخیں ہیں
مرے معصوم بچوں کی
مری آنکھوں کے تاروں کی
کہ جن کے کھیلنے کے دن تھے
لیکن ظالموں نے ان سے کیسا کھیل کھیلاتھا
مرے بچوں سے اس دن موت کھیلی تھی مری آنکھوں میں منظر ہیں
بہت سفا ک منظر ہیں
کہیں بکھری کتابیں ہیں
کہ جن پر موت لکھی ہے
کہیں بستہ ہے کاپی ہے
کہ جن پر خون کے دھبے رُلائیں خون کے آنسو
کسی منظر میں مائیں ، بین کرتی ہیں
کہیں پھولوں کی لاشوں پر
بہت سے پھول رکھے ہیں
مجھے ماؤں کی چیخیں رات بھر سونے نہیں دیتی
کہ میں ان سر د رراتوں میں
یہ گھنٹوں سو چتی ہوں بس
میں پرسہ دے سکوں گی کیا
انہیں اب اپنی نظموں سے ؟
میں کیسے ان کے دکھ کو اپنی نظم میں ڈھا لوں؟
خدا سے پوچھنا چاہوں
کہ یارب تیری دھرتی پر اگریہ ظلم ٹوٹا ہے
زمیں کیوں کر سلامت ہے؟
قیامت کیوں نہیں آئی؟
میں شکوہ کرنہیں سکتی ، جواب آئے گا شکوے کا
تمہارا فرض بھی کچھ تھا
اگر تم قوم بن جاتے
تو یہ دن بھی نہیں آتا
مجھے شکوہ نہیں کرنا
مجھے پرسہ تو دینا ہے
مجھے ان سب دکھوں کو اپنی نظموں میں بھی لکھنا ہے
مرے آنسو بھی حاضر ہیں
مری یہ نظم نذرانہ
مگر میں کیسے پر سہ دوں
کہ یا رب میں بھی توماں ہوں
سو ماں کا دکھ سمجھتی ہوں
مجھے معلوم ہے ایسے دکھوں کاتیری دنیا میں
مداوا ہو نہیں سکتا
کبھی بھی دل گرفتہ ماں کو پرسہ ہو نہیں سکتا
تڑپتی مامتا کواب دلاسہ ہو نہیں سکتا
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
Leave a Reply