فہم درکار ہے شیخ جی کو بہت
جانتے ہیں برا شاعری کو بہت
جانور سے پریشاں نہیں جانور
آدمی سے ہے دکھ آدمی کو بہت
میرے دشمن بھی روئیں گے کھو کر مجھے
میں نے دی ہیں دعائیں سبھی کو بہت
میں دسمبر ہوں آتا ہوں پہلے مگر
یاد کرتے ہیں سب جنوری کو بہت
سیلفی میں بہت مسکراتے ہو تم
کیا ترستے ہو آسودگی کو بہت
بھول جاتی ہے احسان برسات کا
جوش آتا ہے چھوٹی ندی کو بہت
جب اُتارو، عداوت پہ آئے اُتر
یوں نہ سر پر چڑھاؤ کسی کو بہت
خوبیوں پر رہیں گے وہ راغبؔ خموش
اور اچھالیں گے اک اک کمی کو بہت
افتخار راغبؔ
ریاض، سعودی عرب
Leave a Reply