اُن سے کہہ دو کہ نیا اک ستم ایجاد کریں
تاکہ شدت سے ہمیں اور بھی برباد کریں
نام آئے گا ہمارا بھی کہیں یاد اُنہیں
وہ ، جو ایام جوانی کے ذرا یاد کریں
ہم کو اب مہر و محبت سے کوئی کام نہیں
اِن پرندوں سے کہو دشت کو آباد کریں
یہ جو محرومِ تمنا ہیں ستائے ہوئے لوگ
ایسے لوگوں کی دل و جان سے امداد کریں
تُو نے جب ہم سے تعلق ہی نہ رکھنا ہے کوئی
پھر ترے سامنے ہم کس لئے فریاد کریں
اپنی آنکھوں سے مجھے خاک میں رُلتا دیکھیں
اپنے ہاتھوں سے مری چاہ کو برباد کریں
پھر کہاں جا کے بسیں گے ابھی سوچا ہی نہیں
ہم کو تمثیلہ ، قفس سے تو وہ آزاد کریں
شاعرہ تمثیلہ لطیف
Leave a Reply