ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
ایک نامعلوم شاعر کا شعر ہے وہ کہتے ہیں ” پھر آ گیا ہے ایک نیا سال دوستو/اس بار بھی کسی سے دسمبر نہیں رکا” مندرجہ بالا یہ شعر ایک نامعلوم شاعر کے قلم سے نکلے ہوئے نئے سال کے موضوع پر اظہارِ خیال کا خوبصورت مجموعہ ہے۔ ان اشعار میں نیا سال، اس کی خوشیاں، توقعات اور گزرتے وقت کے احساسات کا ذکر مختلف زاویوں سے کیا گیا ہے۔ اردو کے کئی اشعار میں وقت کے گزرنے اور نئے سال کے آنے کے احساس کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ایک مشہور اردو شاعر امیر قزلباش وقت کی گردش اور احساسات کا اظہار اس انداز سے کرتے ہیں:
“یکم جنوری ہے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے”
قزلباش نے اپنے اس شعر میں وقت کے تسلسل اور اس میں چھپے جذباتی پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاعر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وقت گزرتا ہے لیکن احساسات اور حالات اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔ ایک اور نامعلوم شاعر کا شعر ملاحظہ کیجیے:
“پھر آ گیا ہے ایک نیا سال دوستو
اس بار بھی کسی سے دسمبر نہیں رکا”
اس میں شاعر نے دسمبر کو وقت کے ایک اہم سنگِ میل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جو ہر سال آتا ہے لیکن اپنی جگہ پر رکتا نہیں۔ اردو شعرا کے بیشتر اشعار میں نئے سال کے جشن اور امیدوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ کچھ اشعار میں شعرا نے نئے سال کی خوشیوں اور امیدوں کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے مثال کے طور پر اختر شیرانی کا شعر ملاحظہ کیجیے:
“مبارک مبارک نیا سال آیا
خوشی کا سماں ساری دنیا پہ چھایا”
اس شعر میں اختر شیرانی نے نئے سال کی آمد کو ایک عالمی خوشی کے طور پر پیش کیا ہے جہاں ہر طرف خوشی اور مسرت کا ماحول ہے۔ ایک اور شاعر فریاد آزر کہتے ہیں:
“نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے
خدا کرے کہ نیا سال سب کو راس آئے”
اس شعر میں شاعر دعا اور امید کا حسین امتزاج پیش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے جہاں شاعر ہر فرد کے لیے خوشیوں اور سکون کی دعا کرتا ہے۔ بعض اشعار میں طنزیہ اور حقیقت پسندانہ پہلو بھی نظر آتا ہے۔ کچھ اشعار میں وقت کی بے ثباتی اور نئے سال کی حقیقت کو طنزیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے جیسے کہ محمد علوی کا شعر ہے :
“نیا سال دیوار پر ٹانگ دے
پرانے برس کا کلنڈر گرا”
محمد علوی کا یہ شعر وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور انسانی رویوں پر ایک ہلکا پھلکا طنز ہے۔ایک اور شاعر فاروق انجینئر کہتے ہیں:
“پچھلا برس تو خون رلا کر گزر گیا
کیا گل کھلائے گا یہ نیا سال دوستو”
اس شعر میں فاروق نے پچھلے سال کی تلخیوں کو یاد کرتے ہوئے نئے سال کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ بعض شعرا کی شاعر میں نئے سال کے بارے میں فلسفیانہ انداز بھی ملتا ہے جیسے کہ ایک نامعلوم شاعر کا شعر ہے:
“ایک پتا شجر عمر سے لو اور گرا
لوگ کہتے ہیں مبارک ہو نیا سال تمہیں”
اس شعر میں شاعر زندگی کی حقیقت کو ایک درخت سے تشبیہ دی ہے، جہاں ہر سال عمر کے درخت سے ایک پتہ گرتا ہے۔محمد اسد اللہ اپنے شعر میں کہتے ہیں:
“اے جاتے برس تجھ کو سونپا خدا کو
مبارک مبارک نیا سال سب کو”
محمد اسد اللہ نے اپنے اس شعر میں وقت کے گزرنے اور اس کے اختتام کو خدا کی امانت کے طور پر پیش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
مختلف شعرا کے یہ اشعار وقت کی قدروقیمت، انسانی جذبات اور نئے سال کے حوالے سے امیدوں اور خدشات کا ایک متنوع مجموعہ ہیں۔ ہر شاعر نے اپنے منفرد انداز میں نئے سال کو دیکھا اور پیش کیا ہے۔ ان اشعار میں خوشی، دعا، طنز، فلسفہ اور حقیقت پسندی کے مختلف رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں جو انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.comاور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
Leave a Reply