تحریر : محمد عثمان عاصم ، اسلام آباد
پاکستان میں غربت ایک پیچیدہ اور دیرینہ مسئلہ ہے جو نہ صرف ملک کی معیشت بلکہ سماجی ڈھانچے اور اخلاقی اقدار کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ دنیا کی پانچویں بڑی آبادی رکھنے والے اس ملک میں کروڑوں لوگ بنیادی سہولیات جیسے خوراک، صحت، اور تعلیم سے محروم ہیں۔ یہ مسئلہ ماضی سے لے کر آج تک جمہوریت اور آمریت دونوں ادوار میں موجود رہا ہے۔ دونوں نظام غربت کے خاتمے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں کیونکہ عوام کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دی گئی ہے۔
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان میں غربت کی جڑیں نوآبادیاتی نظام سے جڑی ہوئی ہیں، جب وسائل پر قبضہ کر کے مقامی معیشت کو کمزور کیا گیا۔ آزادی کے بعد جمہوریت اور آمریت کے ادوار نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ جمہوری حکومتوں نے عوامی فلاح کے دعوے کیے لیکن بدعنوانی اور ناقص حکومتی پالیسیاں ترقی میں رکاوٹ بنیں۔ آمریت کے دوران، اگرچہ کچھ ترقیاتی منصوبے مکمل کیے گئے، لیکن یہ زیادہ تر مخصوص طبقات تک محدود رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی گئی۔
قرآن پاک میں غربت کے خاتمے کے لیے زکوٰۃ اور صدقہ جیسے نظام کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو، اور اللہ کے حضور جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو۔” (البقرہ: 43)
زکوٰۃ کا مقصد معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے تاکہ کوئی بھی فرد بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
“وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جس میں کمزور کو اس کا حق نہ دیا جائے۔” (مسند احمد)
یہ اسلامی تعلیمات ہمیں ایک ایسے معاشرتی نظام کی بنیاد فراہم کرتی ہیں جو انصاف اور مساوات پر مبنی ہو۔
مفکرین نے غربت کو سماج کی بقا کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ ارسطو نے کہا تھا:
“Poverty is the parent of crime and revolution.”
یعنی غربت جرائم اور انقلاب کی جڑ ہے۔ علامہ اقبال نے بھی اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:
“افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر،
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔”
یہ قول اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قوم کی ترقی انفرادی ذمہ داری اور محنت سے مشروط ہے۔
پاکستان میں غربت کی اہم وجوہات میں بدعنوانی، ناقص حکومتی پالیسیاں، تعلیمی نظام کی پسماندگی، اور بڑھتی ہوئی آبادی شامل ہیں۔ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور روزگار کے مواقع کی کمی نے بھی مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے نہ صرف مضبوط حکومتی پالیسیاں بلکہ معاشرتی شعور اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ زراعت، صنعت، اور تعلیم کے شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھائی جائے اور غربت کے خاتمے کے لیے ایسے پروگرام ترتیب دیے جائیں جو براہ راست عوام کے فائدے کے لیے ہوں۔
آخر میں، یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں غربت کے خاتمے کے لیے جمہوری نظام کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔ بدعنوانی کا خاتمہ، تعلیم کا فروغ، اور انصاف پر مبنی معیشت کا قیام ہی وہ راستے ہیں جو اس ملک کو غربت سے نجات دلا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
“اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور زمین میں پھرو تاکہ تم خوشحال ہو جاؤ۔” (الجمعة: 10)
یہی حکم ہمیں جدوجہد اور انصاف پر مبنی نظام کے قیام کی ترغیب دیتا ہے۔
Leave a Reply