تازہ ترین / Latest
  Monday, January 13th 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

اس نے غیرت کے نام پہ مارا

Articles , Snippets , / Monday, January 13th, 2025

کتنا بڑا لفظ ہے ناں غیرت، کبھی جب آپ دنیا داری کے دھندوں سے فارغ ہو جائیں، جب آپ کو محسوس ہو کہ دو اور دو چار یا بایس نہیں کرنا تو آنکھیں میچ کے سر کو کرسی کی نشست پہ دھیرے سے ٹکا کے دل کی گہرائیوں سے سے سوچیے گا کہ یہ غیرت ہے کس بلا کا نام؟
یہ کس کی میراث ہے؟
کون کون غیرت کے نام پہ پرکھوں کے شملے کو اونچا رکھنے کا پابند ہے؟
غیرت کا مطلب ہے اپنی عزت کے اپنے مطابق مقرر کردہ پیمانے کو برقرار رکھنا، اپنی بے عزتی نہ ہونے دینا، اپنی عزت و تکریم کو برقرار یا بحال رکھنا، سچ تو یہ ہے کہ غیرت ایک خود ساختہ گھڑا ہو ا پیمانہ ہے جس کا حقیقت سے کوی دور کا بھی واسطہ نہیں. کیا آپ کا خیال ہے جھاڑو لگانے والا خاکروب اور وزیراعظم دونوں میں سے غیرت مند کون ہے تو بات مشکل ہو جاے گی مگر میرے خیال میں اور میری نظر سے دیکھیں تو شہر کو غلاظت سے پاک کرنے والا خاکروب زیادہ کارآمد، زیادہ محنتی، باعزت اور با غیرت ہے. روحامہ سیکنڈ ایر کی ایک درمیانی سی طالبہ تھی پڑھای لکھای سے زیادہ اسے غیر نصابی سرگرمیوں کا شوق تھا، آرٹ، ڈراینگ، تیراکی، بیکنگ، کوکنگ میں اسے زیادہ اپنائیت محسوس ہوتی تھی لیکن وہ پڑھائی میں اپنے آپ کو اس طرح خرچ نہ کرتی تھی جیسے ام رباب، ام رباب پڑھنے میں اتنی تیز تھی کہ اگر اس کے سو میں سے پچانوے نمبر بھی آ جاتے تو یہ اس کی غیرت پہ حملے کے مترادف تھا اور روحامہ سو میں سے پچاس نمبر لیکر بھی شاداں و فرحاں ریتی تھی. جب آپ چھوٹے یوتے ہیں، بچے ہوتے ہیں یا ایک طالب علم ہو تے ہیں تو سارے ہی بچے لایق نہیں ہوتے سارے ہی بچے جماعت میں اول یا دویم نہیں آتے، سارے ہی بچے اچھے بچے نہیں ہوتے کچھ پڑھای میں اچھے ہوتے ہیں تو کچھ غیر نصابی سرگرمیوں میں، کچھ انداز و اطوار میں اچھے ہوتے ہیں اور کچھ سیکھنے سکھانے میں، ایک بات ہے کہ ہر انسان کسی نہ کسی خوبی کے ساتھ اس دنیا میں بھیجا گیا ہے.
صالحہ اور صبیحہ دونوں چچا زاد بہنیں تھیں میٹرک کے رزلٹ کے بعد صالحہ اپنا رزلٹ کارڈ گھر کے ایک ایک فرد کو دکھا کر اتراتی پھرتی تھی جبکہ صبیحہ جس کے گریڈز اچھے نہ تھے وہ ہر کسی سے کتراتی پھرتی تھی، منہ چھپ؛ تی پھرتی تھی، اس معاملے میں بھی خواہ مخواہ غیرت نامی بھوت کی مٹی پلید کی جاتی تھی حالانکہ بات معمولی سی تھی کہ ہر انسان کی ذہانت کا پیمانہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے کاش ہمارے بڑے، والدین اور ماہر تعلیمات اد بات کو سمجھتے.
سندری گھر کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی اس کی شادی ایک معمولی گھرانے میں ہوی تھی شادیوں، فوتگیوں اور فیملی کے gettogathers میں اس کے کپڑے معمولی ہوتے تھے،؛
اگر لوگ اچھے ہوتے اسے اس کی کم ماییگی کا احساس نہ دلاتے تو اس کی نام نہاد غیرت نہ جاگتی ناں مگر سچ ہے کہ.
ہمیں، ہماری نہیں دوسروں کی آنکھیں برباد کرتی ہیں.
مگر انسان کا تو جینا مرنا ہی معاشرے کے ساتھ ساتھ ہے ہم اور آپ کہاں تک اور کب تک. معاشرے کے اس بھوت سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں.
سعد نامی ایک بارہ سالہ لڑکے نے غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کے ایک نانبای کی دوکان سے ڈبل روٹی کیا چرای پورے کی پوری دوکاندار برادری سعد کے پیچھے پڑ گءی بارہ سالہ بچے کو معاف کرنے کی بجاے ذہنی اور جذباتی طور پر اتنا ذلیل و خوار کیا گیا کہ اس کی غیرت کو جگا کر ہی دم لیا گیا اور آخر کار بچے نے دریا میں چھلانگ لگا کر سب غیرت مندوں کے منہ سے نکلتے ہوئے انگاروں کو بجھا ہی دیا.
آپ نے اکثر سنا ہو گا یا دیکھا ہو گا کچھ بچیوں کو پیدا ہوتے ہی یا بچپن میں ہی والد کے ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھی یہ ناروا سلوک اتنا جان. لیوا ہو جاتا ہے کہ بچی کی جان لے کر ہی ٹلتا ہے ان کیسز میں باپ کو اپنی بیوی کے کردار پہ شک ہوتا ہے اور خمیازہ معصوم اور مظلوم بچیوں کو اپنی جان کی قربانی دے کر بھگتنا پڑتا ہے پھر بھلے انگلینڈ میں پیدا ہونے والی سارہ شریف ہو یا چوہا سیدن شاہ میں پیدا ہونے والی کبریا ندیم. غیرت کے نام پہ ان بیچاریوں کو ایسے ہی گاجر مولی کی طرح تڑپا تڑپا کر اور سسکا سسکا کر مارا جاتا ہے.
نصیبوں میں میرے ہیں دھکوں پہ دھکے
ہے ٹھوکر پہ ٹھوکر
ہے ذلت پہ ذلت.
سدا ہی مجھ کو ستایا گیا
سولی پہ مجھ کو چڑھایا گیا
سدا مجھ پہ تہمت لگای گءی
یہ کیسا دیس ہے یہاں غیرت صرف مظلوموں کا مذاق اڑانے، مظلوموں کو نیچا دکھانے کے لیے ہی کیوں جاگتی ہے یہ غیرت
مظلوموں، بے کسوں کو ان کا حق دلانے کے لیے کیوں نہیں جاگتی؟
یہ غیرت خواتین کو ان کے وراثتی حقوق دلوانے کے لیے کیوں نہیں جاگتی؟
یہ غیرت دنیا کے کونوں میں پھیلے ہوئے غربا اور مساکین کے حقوق کی پاسداری کے لیے کیوں نہیں جاگتی؟
یہ غیرت جھوٹ، بے ایمانی ،رشوت ستانی، بے جا نمودو نمایش، ذخیرہ اندوزی،مظلوموں، معصو موں، مقتولوں اور بے جا ظلم کے خاتمے کے خلاف کیوں نہیں جاگتی.
یہ فرعونیت، یہ نمرودیت، یہ یزیدیت اب بہت چبھنے لگی ہے اب دنیا پہ انصاف چاہتے ہیں، غیرت کے نام پہ ان تمام ڈھکوسلوں سے پناہ مانگتے ہیں.
اپنے اس شعر کے ساتھ اجازت
یہ داستان ستم، ختم ہونے والی ہے
شام ڈھلنے والی ہے، سحر ہونے والی ہے
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gmail,com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International