تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور۔۔
پیارے قارٸین!ایک احساس نوجوان نسل میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نوجوان کسی بھی ملک اور قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ قوم اور ملت اصولوں اور نظریات کے پاسبان و محافظ بھی ہوتے ہیں۔تاہم تعلیم کے ذریعے نوجوان نسل کی بہتر تعلیم و تربیت اسلامی خطوط پر کرنے کی ضرورت ہر وقت دامن گیر رہتی ہے۔ جس ملک اور قوم کا نوجوان باشعور اور بیدار ہوتا ہے اس کا کردار اور کارہاۓ نمایاں بھی قابل تحسین ہوتے ہیں۔بقول شاعر:-
جوانوں کو میری آہ سحر دے
ان شاہین بچوں کو بال وپر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کر دے
غور و فکر کے زاویہ خیال سے اس دعا میں ایک خوبصورت بات پوشیدہ ہے کہ نوجوان ہی قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جو تعمیر ملک و ملت میں تاریخ ساز کردار ادا کرتے ہیں۔دین سے محبت،ملک سے پیار،والدین کی خدمت،انسانیت کا احترام ،دوسروں کا درد محسوس کرنا ،درد مندوں اور صعیفوں سے محبت کرنااولین مقصد حیات سمجھتے ہیں۔جب ملک و ملت کے نوجوانوں کی مثالی تربیت ہوتی ہے تو ان کی زندگی میں ایک انقلاب پیدا ہوتا ہے۔اس ضمن میں انقلاب کے مفہوم کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ہمہ پہلو زندگی میں تبدیلی اور کیفیت ہی تو انقلاب ہے۔تعلیم ہی تو ایسا عالمگیر عمل ہے جس سے افراد کی عملی تربیت اور اوج کمال پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات تو مسلمہ ہے کہ راز حیات سے آشنائی نوجوان نسل کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اس کے تناظر میں جاٸزہ لیا جاۓ توخود داری اور خود نگری کا احساس اجاگر کرنے کی ضرورت زیادہ ہے۔جب نوجوانوں کی تربیت مثالی تصور ہوتی ہے تو اس کے خوشگوار اثرات سامنے آتے ہیں۔ نوجوان چونکہ ملک و ملت کا سرمایہ ہوتے ہیں۔اس لیے بہترین تعلیم و تربیت سے جب یہ احساس پختہ تر ہوتا ہے تو وہ آزاد قوم کی طرح زندہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔نوجوانوں کے اندر ایک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔اور نٸی کامیابی کے حصول کے لیے اضطرابی کیفیت جنم لیتی ہے۔وہ متاع دین و دانش کی حفاظت کا ذمہ اپنے سر لیتے ہیں۔اسلامی روایات اور اخلاقی اقدار سے آشنائی حاصل ہونے سے راز حیات ان کی آنکھوں پر عیاں ہوتا ہے۔ نوجوان نسل کو قرآن مجید کی روشن تعلیمات اور حدیث نبویؐ کی اہمیت سے بھی آگاہ کرنا ہے۔یہ حقیقت تو عیاں ہے جب نوجوانوں کی خودی بیدار ہوتی ہے تو ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کی ایک نئی امنگ اور ترنگ ان کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے۔ نوجوان نسل کو اس راز سے بھی آگاہی ہوتی ہے کہ بقول شاعر:-
راز حیات پوچھ لے خضر خجستہ گام سے
زندہ ہر اک چیز ہے کوشش ناتمام سے
غیرت اور حمیت سے زندہ رہنا چونکہ ایک آزاد قوم کا شیوہ ہوتا ہے اس لیے نوجوان نسل کے اندر با وقار انداز سے زندہ رہنا سکھانا لازم ہے۔اقبالؒ جیسے عظیم شاعر نے تو نوجوان کو شاہین سے تشبیہ دی ۔بقول اقبالؒ:-
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
ملک کی تعمیروترقی میں اگر کوٸی طاقت کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے تو وہ نوجوان نسل ہی ہے۔اس لیے زندہ رہنے کے اصول اور قواعد نوجوانوں کو سکھانا وقت کا تقاضا ہے۔خیالات میں بلندی اور نظر میں وسعت پیدا ہونے سے ہی تو نوجوان کی شخصیت اور کردار میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔زندگی کے بنیادی تقاضوں سے جب آگاہی ہوتی ہے تو یہ بات نوجوان نسل میں پختہ ہو جاتی ہے۔بقول شاعر:-
اے طاٸر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
سماج اور معاشرے میں نفرت اور حقارت کے جذبات اس وقت سرد پڑ تے ہیں جب نو جوان نسل نٸے زاویہ خیال سے سوچتی ہے۔ راز حقیقت سے واقفیت سے محبتوں کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔وطن کی مٹی سے محبت ہی جوانوں کو سرشار رکھتی ہے۔یہ احساس صرف اور صرف علم سے ہی اجاگر ہو پاتا ہے کہ محنت میں عظمت ہے۔سوچ اور فکر کے زاویے تبدیل ہونے سے ہی شخصیت و کردار تبدیل ہوتا ہے۔سیرت و کردار تو نوجوان نسل کی شناخت کے لیے لازم ہے۔یہ بات زور دے کر کہی جا سکتی ہے کہ معاشرتی رویے بھی نوجوان نسل کو متاثر کرتے ہیں۔اس لیے مناسب ماحول انہیں فراہم کیا جاۓ تاکہ مثبت فکری جہات فروغ پائیں۔درد مندوں سے اور ضعیفوں سے محبت کا راز ان پر عیاں ہو۔وہ اس بات پر بھی آمادہ ہوں کہ خود شکنی و خود نگری سے عظمت ملتی ہے۔بقول شاعر:.
رفعت میں مقاصد کو ہمدوش ثریا کر
خود داری ساحل دے،آزادی دریا دے
عصر نو کے تقاضوں کے پیش نظر نوجوان یہ بھی جان سکیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ جن معاشروں میں خاندانی اور لسانی تعصبات پاۓ جاتے ہیں وہاں نفرت کی آگ جلتی ہے۔اور جن معاشروں میں امن ہوتا ہے وہاں زندگی خوبصورت روپ میں سامنے آتی ہے۔اس لیے پرسکون زندگی کا احساس ہی ترقی کا سنگ میل ثابت ہوتا ہے۔خودنگری کا احساس بیدار ہونے سے سراپا درد کی حقیقت بھی نکھر کر سامنے آتی ہے۔
تحریر۔فخرالزمان سرحدی
گاٶں ڈِنگ ٬ڈاک خانہ ریحانہ
تحصیل و ضلع ہری پور
رابطہ۔03123377085
Leave a Reply