Today ePaper
Rahbar e Kisan International

دلوں کے کینوس کا شاعر خواجہ ثقلین سمیط

Articles , Snippets , / Thursday, January 23rd, 2025

تحریر: اشعر عالم عماد۔ کراچی پاکستان

اردو شاعری جذبات و خیالات کی دلکش ترجمانی کا ایک ایسا فن ہے جو الفاظ کو حسن و لطافت کے پیرائے میں ڈھال کر دل و روح پر اثر انداز ہوتا ہے۔
یہ زندگی کی حقیقتوں، محبت کے جذبات، فطرت کی خوبصورتی اور انسان کے اندرونی احساسات کو ایک منفرد انداز میں بیان کرتی ہے، جس میں زبان کی لطافت، خیال کی گہرائی اور جذبات کی شدت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ اردو شاعری نے ولی دکنی سے دورِ حاضر تک نامور شعراء پیدا کئے جن کی شاعری کا سحر نصف صدی گزر جانے بعد بھی روزِ اول سے آج تک قائم ذہن و دل پر طاری ہے۔ تقیسمِ ہند سے قبل ہندوستان نے ان گنت اردو شعراء دیئے قیامِ پاکستان دونوں جانب بہترین شعراء کے ظہور کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ آج میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے جس شاعر کا تعارف پیش کرنے جا رہا ہوں وہ اردو شاعری کے حوالے ہندوستان و پاکستان کے ساتھ دنیا بھر میں یکساں شہرت رکھتے ہیں وہ ناصرف اپنی شاعری کے زریعے ایک علحیدہ پہچان رکھتے ہیں بلکہ ایک قابل استاذ کی حیثیت سے بھی اپنا مقام رکھتے ہیں۔ ان سے تلمذ لینے والے نو آموز شعراء انڈو پاک میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ناگپور انڈیا سے سے تعلق رکھنے والے خواجہ غلام الثقلین سمیط 31 دسمبر 1962 کو انڈیا کے صوبہ مہاراشٹر کے شہر ناگپور میں پیدا ہوئے۔ آپ پیشے کے اعتبار سے اِنجینیئر ہیں تاہم اب ریٹائرڈ ہو کر علم و فنون سے وابستہ تنظیموں اور اداروں سے منسلک ہوگئے ہیں۔
“پانی کی بوندوں پر کرِنیں جانے کیا کر جاتی ہیں
دور دھنک کی شوخ کمانیں رنگت پر اتِراتی ہیں
خواب پرندے بوجھل پر سمٹائے اکثر پوچھتے ہیں
نیند کی پریاں کیوں پلکوں تک آ آ کر رک جاتی ہیں”
آپ کا کلام انڈیا کے قومی اخبارات اور بے شمار انٹرنیشنل رسالوں کی زینت بنتا رہتا ہے۔ گلوبل آن لائن مشاعرے، آل انڈیا مشاعرے، دور درشن دہلی اردو میں مشاعرے میں ہوتے رہتے ہیں۔
خواجہ ثقلین سمیط کے کلام میں موسیقیت، تشبیہ و استعارہ،خیالات کی تمام تر وسعت و جلوہ آفرینی کے ساتھ نمایاں نظر آتی ہے ان کی شاعری دل کو چھونے والے جذبات کو ایسے بیان کرتی ہے کہ سامع یا قاری کے دل میں ایک خاص کیفیت پیدا ہو جاتی ہے حسن و عشق کا بیان ہو یا ہجر و وصال و تغافل کا گِلا، ان کی شاعری میں اس خوبی سے بیان ہوتے ہیں کہ گویا قاری اسے اپنے دل میں اسے محسوس کرنے لگتا ہے کہ جیسے وہ اسی کے دل کی آواز ہوں وہ اپنے کلام سے دل میں اترنے اور سحر پیدا کرنے کے ہنر جانتے ہیں۔ بطور نمونہ کلام یہ غزل ملاحظہ ہو۔۔
ملیں ، تو ہجر کے آسیب دل میں پالتا ہے
تو خود کو کیسے عجب وسوسوں میں ڈالتا ہے

تری بقا کی اسی رب سے مانگتا ہوں دعا
بھنور سے کشتیاں ، ساحل پہ جو اچھالتا ہے

وہ بے سبیل پَلوں میں ترا محافظ ہو
عصا سے راستہ جو نیل میں نکالتا ہے

میں اپنے بخت کا سورج نہ بخش دوں تجھ کو ؟
تُو ظلمتوں میں مرے راستے اجالتا ہے

میں رکھ نہ دوں ترے قدموں میں اپنے آہنی عزم ؟
تُو لڑکھڑانے سے پہلے مجھے سنبھالتا ہے

مرے حصار میں ، بے آسرا رہے کیوں کر
جو چٹکیوں میں مسائل کے حل نکالتا ہے

سمیطٓ ، اُس سے تہجد میں مانگے خیر تری
دعاؤں سے جو ، ہر آئی بلا کو ٹالتا ہے
راقم نے ان کی صدارت میں کئی زووم مشاعروں میں شریک ہونے کا شرف حاصل کیا ان کا کلام جب ان کی زبانی سنا یقین جانیئے ان کے شعروں کا ایک ایک حروف نقش و نگار کی طرح دل کے کینوس پر ایسا اترتا چلا جاتا ہے جس کا اظہار کم از کم میرے اسلوب و زبان کے بیان سے باہر ہے۔ خواجہ صاحب کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی ان کی زبان کی سادگی ہے۔ ان کے اشعار میں عام بول چال کی زبان استعمال ہوتی ہے جو قاری کے دل پر فوری اثر کرتی ہے ان کی شاعری میں شوخی، رنگینی اور زندگی کا ایک خاص پہلو ہے، جو ان کی ذاتی شخصیت کا عکس پیش کرتا ہے۔ وہ عشق کو ایک مثبت جذبے کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ان کی شاعری سادگی، روانی، شوخی اور جذبات کی گہرائی کا ایک حسین امتزاج ہے۔نمونہ کلام ملاحظہ ہو۔
اسِ سے پہلے مری چاہت ، تری قربت مانگے
تجھ کو پا لینے کی خواہش ، بڑی جرأت مانگے

اتنے وارفتہ تھے جذبات لپٹ جانے کو
دفعتاً کیسے کوئی تجھ سے اجازت مانگے

وہ سبک بار سراپا ہے کہ تجھ سے ، توبہ
نیند میں چلنے کے انداز ، قیامت مانگے

یہ بھی اعجاز ترے سرو قدِ ناز کا ہے
سر نگوں ہو کے صنوبر تری قامت مانگے

صبح کی سردی بھری دھوپ میں ہمت ہی نہیں
شعلہ تمثال ترے لب سے تمازت مانگے

چھو کے آنچل کو ترے کوئی دھنک ہے مسرور
تیری آنکھوں سے کوئی آئنہ ، حیرت مانگے

تو ، قبیلے کے اصولوں کا ہے پابند اب تک
اور مرا عشق ، کہ اکثر نئی تہمت مانگے

بخت میں میرا خدا ، لکھ دے جو یہ خُلد نژاد
کون فردوس میں پھر ، حور کی صحبت مانگے

آمدِ فصلِ بہاراں پہ یہ دیکھا ہے سمیطٓ
پھول کشکول اٹھائے تری نکہت مانگے

خواجہ ثقلین سمیط کا مجموعہ کلام پاکستان سے زیرِ اشاعت ہے جو ان شاءاللہ جلد ہی دستیاب ہوگا پھر زمانہ بہت جلد اس حقیقت پر سرِ خم تسلیم کرے گا کہ خواجہ ثقلین سمیط اردو ادب کے جہاں میں ایسے چراغ کی مانند ابھرے ہیں جس کی روشنی ہمیشہ تابندہ رہے گی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International