تحریر: طارق خان یوسفزئی
گزشتہ روز ہفتہ باچا خان بابا کے سلسلے میں باچا خان مرکز پشاور میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ایمل ولی خان، صوبائی قائدین، اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ تقریب کا مقصد باچا خان بابا کے امن، عدم تشدد، تعلیم، اور سماجی اصلاحات کے فلسفے کو اجاگر کرنا تھا۔ مقررین نے ان کی خدائی خدمتگار تحریک اور پشتون قوم کے لیے بے لوث خدمات پر روشنی ڈالی۔ ثقافتی پروگرام، مشاعرہ، اور علمی مذاکرے نے تقریب کو مزید دلچسپ بنایا، جس میں نوجوانوں کو ان کے نظریات سے روشناس کرانے کی کوشش کی گئی۔ باچا خان مرکز کی اس تقریب نے شرکاء کو ان کی جدوجہد کی یاد دلاتے ہوئے اتحاد، تعلیم، اور امن کے فروغ کے عہد کی تجدید کا موقع فراہم کیا۔اگر آج کے نوجوانوں کی فہم و ادراک اور سیاسی پختگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ نہایت افسوسناک انکشاف ہوگا کہ پشتون قوم کے نوجوان اس ہستی کے نام سے بھی واقف نہیں، جنہوں نے پشتونوں کی بقا، سیاسی بیداری، تعلیمی فروغ، اور معاشرتی اصلاح کے لیے اپنی زندگی وقف کی تھی۔ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ آج کل کے پشتون نوجوان باچا خان بابا کی بے مثال جدوجہد اور کارناموں سے ناواقف نظر آتے ہیں۔ وہ عظیم رہنما جنہوں نے اپنی پوری زندگی پشتون قوم کی تعلیمی، سماجی، اور سیاسی بیداری کے لیے وقف کی، ان کی قربانیوں اور فلسفے کو آج فراموش کیا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل، جو جدید ٹیکنالوجی اور تیز رفتار زندگی میں مصروف ہے، اپنی تاریخ اور ان رہنماؤں کے حقیقی کردار سے بے خبر ہوتی جا رہی ہے جنہوں نے ان کے لیے ترقی کے راستے ہموار کیے۔ باچا خان بابا کا عدم تشدد کا پیغام، تعلیم کی اہمیت پر زور، اور پشتونوں کو اتحاد کی لڑی میں پرونے کی کوششیں آج بھی رہنمائی کا ذریعہ بن سکتی ہیں، لیکن ان کے کارناموں کو نسلِ نو تک پہنچانے کے لیے مؤثر تعلیمی اور سماجی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔اس بے خبری کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ تعلیمی نصاب میں ان کے فلسفے کو شامل کیا جائے، سیمینارز اور تقریبات کا انعقاد کیا جائے، اور نوجوانوں کو ان کی جدوجہد سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ اپنی تاریخ اور شناخت پر فخر محسوس کر سکیں۔باچا خان نے پشتون قوم کی تعلیمی پسماندگی کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھا اور اس کے حل کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے 1910 کی دہائی میں پشتونوں میں تعلیم کے فروغ کا بیڑا اٹھایا اور اپنے گاؤں اُتمان زئی میں پہلا آزاد مدرسہ قائم کیا، جس کا مقصد جدید اور روایتی تعلیم کو یکجا کرنا تھا۔ ان کے “آزاد اسکولز” نے نہ صرف بچوں کو علم کی روشنی فراہم کی بلکہ انہیں امن، اتحاد، اور عدم تشدد کے اصول بھی سکھائے۔ انہوں نے پشتونوں کو یہ باور کرایا کہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس سے غلامی اور پسماندگی کے اندھیروں سے نکلا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے “خدائی خدمتگار تحریک” کے پلیٹ فارم کو استعمال کیا اور تعلیمی شعور اجاگر کرنے کے لیے اپنے کارکنوں کو متحرک کیا۔ برطانوی حکومت کی مخالفت اور اسکولوں پر پابندیوں کے باوجود، باچا خان نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور تعلیم کو اپنی قوم کے لیے آزادی اور ترقی کا ذریعہ بنایا۔ ان کے تعلیمی اقدامات نے پشتون معاشرے میں علم کی اہمیت کو اجاگر کیا اور آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن گئے۔باچا خان بابا نے پشتون قوم میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی اور اپنی بصیرت و عمل سے ایک پسماندہ اور منقسم قوم کو آزادی، اتحاد، اور شعور کی راہ دکھائی۔ انہوں نے برطانوی سامراج کے خلاف ایک منظم سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا اور 1929 میں “خدائی خدمتگار تحریک” کی بنیاد رکھی، جو عدم تشدد کے فلسفے پر مبنی تھی۔ اس تحریک کے ذریعے انہوں نے پشتونوں کو سیاسی شعور دیا اور انہیں بتایا کہ آزادی اور حقوق کے لیے پرامن جدوجہد ضروری ہے۔ وہ کانگریس پارٹی کے ساتھ مل کر ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں شامل ہوئے اور سامراجی حکومت کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے پشتون قوم کو اپنے داخلی مسائل، عدم اتحاد، اور سماجی برائیوں سے آزاد کرانے کے لیے سیاسی طور پر منظم کیا۔ ان کی تقاریر، جلسے، اور تحریکیں عوام کو سامراجی غلامی کے خلاف متحرک کرنے میں کامیاب رہیں۔ برطانوی حکومت نے انہیں کئی بار قید کیا، لیکن ان کا عزم کبھی کمزور نہیں ہوا۔ باچا خان نے پشتون قوم کو باور کرایا کہ سیاسی شعور اور اتحاد ہی آزادی اور خودمختاری کا راستہ ہے، اور ان کی یہ جدوجہد آج بھی سیاسی شعور کے لیے ایک مثال ہے۔باچا خان بابا نے پشتون معاشرے کی اصلاح کو اپنی جدوجہد کا ایک اہم حصہ بنایا اور اپنی قوم کو سماجی برائیوں، پسماندگی، اور انتشار سے نکالنے کے لیے بھرپور اقدامات کیے۔ انہوں نے پشتونوں میں روایتی دشمنیوں اور انتقامی رویوں کو ختم کرنے کے لیے عدم تشدد کے فلسفے کو فروغ دیا اور انہیں امن، بھائی چارے، اور انسانیت کی اہمیت سمجھائی۔ اپنی خدائی خدمتگار تحریک کے ذریعے انہوں نے عوام کو خدمتِ خلق، اتحاد، اور مساوات کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی۔ باچا خان نے عورتوں کی تعلیم اور ان کے حقوق کی وکالت کرتے ہوئے معاشرتی ترقی میں خواتین کے کردار کو اہم قرار دیا۔ وہ قوم کی پسماندگی کا سبب ناخواندگی اور قبائلی دشمنیوں کو سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے تعلیم کو عام کرنے، انصاف کے قیام، اور سماجی مساوات کے فروغ کے لیے اسکولز اور کمیونٹی مراکز قائم کیے۔ انہوں نے اپنے خطبات اور تحریروں کے ذریعے پشتون عوام کو یہ باور کرایا کہ اتحاد اور اصلاح کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ ان کی کاوشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پشتون معاشرہ ایک نئی سمت میں گامزن ہوا، اور ان کی تعلیمات آج بھی سماجی اصلاحات کے لیے مشعلِ راہ سمجھی جاتی ہیں۔جدید دور میں باچا خان کے نظریے کی ضرورت اور اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے، کیونکہ آج دنیا مختلف قسم کے سماجی، سیاسی، اور ثقافتی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ عدم تشدد، امن، تعلیم، اور انسانی وقار پر مبنی ان کا نظریہ ان مسائل کے حل کے لیے ایک جامع راہ فراہم کرتا ہے۔ آج جب کہ دنیا انتہا پسندی، تنازعات، اور معاشرتی تقسیم کا شکار ہے، باچا خان کا پیغام اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دینے میں رہنمائی فراہم کر سکتا ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ تعلیم ہی ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے، اور یہ نظریہ آج بھی ان اقوام کے لیے مشعلِ راہ ہے جو جہالت اور پسماندگی کا شکار ہیں۔ ان کی جدوجہد سماجی انصاف، خواتین کے حقوق، اور محروم طبقات کے لیے مساوات پر مبنی تھی، جو آج کے دور میں بھی انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ باچا خان کا فلسفہ یہ سکھاتا ہے کہ تشدد اور دشمنی کے بجائے مذاکرات، رواداری، اور انسانیت کی خدمت کے ذریعے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ جدید دنیا کے پیچیدہ مسائل، جیسے کہ معاشرتی انتشار، عدم مساوات، اور عالمی امن کے لیے ان کے اصولوں کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ انسانیت ایک پرامن اور ترقی یافتہ راستے پر گامزن ہو سکے۔
باچا خان کا نظریہ عدم تشدد ان کی زندگی اور جدوجہد کا مرکزی ستون تھا، جو امن، برداشت، اور انسانیت کی خدمت پر مبنی تھا۔ انہوں نے عدم تشدد کو نہ صرف ایک اخلاقی اصول کے طور پر اپنایا بلکہ اسے سماجی اور سیاسی جدوجہد کے لیے ایک عملی حکمتِ عملی کے طور پر بھی استعمال کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ تشدد مسائل کا حل نہیں بلکہ مزید نفرت اور تباہی کو جنم دیتا ہے، جبکہ عدم تشدد کے ذریعے حقیقی اور پائیدار تبدیلی ممکن ہے۔ انہوں نے اپنی خدائی خدمتگار تحریک کے کارکنان کو عدم تشدد کی قسم دلائی اور انہیں سکھایا کہ ہر قسم کے ظلم، جبر، اور ناانصافی کا مقابلہ پرامن طریقے سے کریں۔ برطانوی سامراج کی جانب سے شدید مظالم کے باوجود، انہوں نے کبھی تشدد کا راستہ نہیں اپنایا اور اپنی قوم کو صبر و تحمل کے ذریعے آزادی اور حقوق کے حصول کا درس دیا۔ باچا خان کا یہ نظریہ نہ صرف سیاسی جدوجہد بلکہ سماجی اصلاح کے لیے بھی ایک قابلِ عمل اصول ہے، جو آج کے دور میں نفرت، انتشار، اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔
Leave a Reply