ایک پوش علاقے میں ایک بہت بڑے برانڈڈ سکول میں ایک نو سالہ بچے کے والدین اپنے بیٹے کے داخلے کے سلسلے میں معلومات لے رہے تھے. اب آپ لامحالہ مجھ پہ اعتراضات کی ایک لمبی فہرست لگا دیں گے کہ چلو برانڈڈ گھڑیاں
برانڈڈ جیولری
برانڈڈ کپڑے
برانڈڈ کھانے
برانڈڈ ریسٹورنٹ
برانڈڈ بوتیک
برانڈڈ سیلون
برانڈڈ سنگرز
برانڈڈ پارٹی ڈیکورز
برانڈڈ فنکشن آرگنایزرز
غرض کیا بتایں اور کیا نہ بتائیں اس برانڈڈ کے گول مول چکر نے سانسیں لیتے ہوئے تمام انسانوں کو بھی زمین کی طرح گول مول ہی کر چھوڑا ہے، لوگ نفسا نفسی کے جن کے اتنے اسیر ہو چکے ہیں کہ اگا دوڑ اور پیچھا چوڑ نے انسان کو اتنا تنہا، اتنا مجبور، اتنا لاچار اور اتنا بے بس کر دیا ہے کہ ہر شخص بھری محفل میں یکا و تنہا ہے. مگر خیر یہ تنہائی والا قصہ کسی اور دن پہ ٹال کر ہم اس ماڈرن اور برانڈڈ سکول کے ملاقاتی کمرے میں چلے جاتے ہیں جہاں جناب اکمل نیازی اپنی گھریلو، سیدھی سادی بیگم حور نیازی کے ساتھ اپنے بیٹے سہراب نیازی کے داخلے کے سلسلے میں ابتدائی معلومات حاصل کرنے کے لیے آئے بیٹھے ہیں. اکمل نیازی ایک زمیندار تھے، شہر میں گاڑیوں کا شو روم تھا، دو بچے تھے، بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے لیے شہر شفٹ ہوے تھے بیگم صاحبہ معمولی پڑھی لکھی تھیں، اور فی زمانہ بچوں کو ایسا سکول چاہیے تھا جہاں اور کچھ بھلے پڑھایا جاے نہ جاے طالبات اور طالب علموں کی انگریزی بہت اعلیٰ پاے کی ہونی چاہیئے. اس بھیڑ چال کا شکار ہم کب، کیوں اور کیسے ہوے یہ ایک لمبی کہانی ہے لیکن آج اس کا تفصیلی ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ
اگر آج اس جان لیوا روگ کا لکھ کر اظہاریہ نہ کیا گیا تو یہ اپنے ساتھ، ملک و قوم کے ساتھ اور اپنے ضمیر کے ساتھ بہت بڑی بد دیانتی ہو گی، بہت بڑی نا انصافی ہو گی، بہت بڑا ظلم ہو گا. ماں بولی کو بین الاقوامی طور پہ بڑی اہمیت حاصل ہے، بڑا مرتبہ اور مقام ہے ، کیا ہوتی ہے ماں بولی؟
ماں بولی کسی بھی انسان کے خطے کی بولی کو کہتے ہیں جو وہاں کے مقامی لوگ سمجھتے ہیں اور اپنا نقطہ نظر سمجھانے کے لیے اسی ماں بولی کو اظہار خیال کا ذریعہ بناتے ہیں. پوری دنیا میں سینکڑوں زبانیں بولی، سمجھی اور لکھی جاتی ہیں، دینے والے کی عطا ہے کہ اس نے انسان کو علم، عقل اور شعور دینے میں بھی بڑی ہی فیاضی کا مظاہرہ کیا.
دینے والے کی عطا لا محدود
اس کی رحمت کا کرم پل پل ہے
وہ نوازا ہے میرے مالک نے کہ
کہ سمیٹوں کہاں دو ہاتھوں سے
خیر سینکڑوں زبانیں جو دنیا میں بولی جاتی ہیں ان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان انگریزی ہے، پھر چینی زبان، فرانسیسی زبان، ہندی زبان، اردو زبان، عربی زبان، مراکشی زبان آتی ہیں اور ہم پاکستانی لوگوں کی قومی زبان تو اردو ہی ہے مگر مختلف صوبوں میں بولی جانے والی زبانیں کچھ اس طرح سے ہیں، پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، سرائیکی، ہندکو اور براہوی زبان. ماں بولی کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ہم اپنی ماں بولی میں نہ صرف اپنے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کر سکتے ہیں بلکہ اپنا نقطہ نظر بھی بہتر انداز میں پیش کر سکتے ہیں، اظہار خیال کے لیے بہترین ذریعہ ماں بولی ہی ہے. لیکن ہماری بدنصیبی کہہ لیں، کوتاہ نظری کہہ لیں یا شدید قسم کی احساس کمتری کہہ لیں کہ ہم اپنی ماں بولی کو خود ہی اس کے جایز مقام سے گراتے رہے اور درحقیقت اپنے آپ ہی کو سماج کی نظروں سے گراتے رہے اور اپنی اوقات سچ میں دو کوڑی کی ہی کر چھوڑی. جن سمجھدار اور باشعور قوموں نے ترقی کی سیڑھیوں پہ اوپر چڑھنا تھا انھیں کبھی سوچ بھی نہیں آی ہو گی کہ اپنی ماں بولی کو چھوڑ کر انگریزی کی انگلی پکڑنی ہے، انگریزی کی مالا جپنی ہے انھوں نے اپنی ماں بولی کو بھی سمبھالا، اپنی محنت و مشقت کو بھی جاری رکھا اور تمام دنیا کو دکھا دیا کہ اقوم اپنی ماں بولی کو اپنا کر اور اپنی ماں بولی کو اپنے سکولوں، دفاتر اور تمام لین دین کے اداروں میں نافذ کر کے کس طرح ترقی کی سیڑھیاں چڑھتی ہیں اور کس طرح سے دنیا میں اپنی نصرت و کامرانی کے جھنڈے گاڑتی ہیں. ان باشعور اور غیور اقوام میں سر فہرست چین، جاپان، فرانس اور جرمنی شامل ہیں جنہوں نے اپنی اپنی ماں بولی کی قدر اسی طرح سے کی جیسے کوی بھی خاندانی انسان اپنی ماں کی عزت و تکریم کرتا ہے،اپنی ماں کی قدر کرتا ہے.
اور غیور اور اہل شعور تو اپنی ماں بولی کی صرف حفاظت ہی نہیں کرتے بلکہ اسے وراثت کی طرح اگلی نسل تک بھی منتقل کرنے کو فرض اور عین عبادت سمجھتے ہیں. ایک سگھڑ پنجابن کا بیٹا سولہ سال کی عمر میں ہی کمای کرنے یورپ چلا گیا طویل عرصے تک ماں بیٹے کے رابطے منقطع رہے جب ماں علیل ہو کے بستر مرگ پہ پہنچ گءی تو ایک دن ایک اجنبی دور دیس سے ماں کے پاس یہ سندیسہ لے کر آیا کہ ماں تیرا صدیوں سے مسافر بیٹا نہ صرف تجھے یاد کرتا ہے، نہ صرف تیری اور تیرے گاوں کی باتیں کرتا ہے بلکہ تجھ سے ملنے کو بے تاب بھی ہے اور جلد ہی تجھ سے ملنے بھی آے گا. بستر مرگ پہ آخری سانسیں لیتی ہوی ماں کی آنکھوں میں امید کے مدھم ہوتے دییے پھر سے روشن ہوے، بزرگ و نخیف ماں نے اٹھ کے اس پردیسی کے ہاتھ چومے، اس سے اپنے بیٹے کا نام اور حال چال پوچھا پھر بولی، یہ بتاو تم دونوں آپس میں کس زبان میں بات چیت کرتے ہو، اجنبی نے جب کہا ہسپانوی میں تو ماں کی آنکھوں میں امید کے روشن دییوں پہ پانی پھر گیا، منتظر اور بیمار ماں نے انتہائی دکھی دل کے ساتھ آخری سانس لی اور جان، جان آفرین کے سپرد کر دی.
تو ہم اک عہد بد نصیب کی وہ انتہائی بد نصیب پیڑی ہیں کہ ہم نے اپنے، اور اپنے بچوں کے مستقبل کو ان چند مکروہ، دوغلے اور لالچی ہاتھوں میں دے دیا جنہیں ماسوائے سپوکن انگلش کو چورن کی طرح بیچ کر اپنے بینک بیلنس بڑھانے کے اور کوی دوسرا کام تھا نہ نیت. تو ساری قوم کو فر فر انگریزی بولنے کا جھانسہ دے کر پرائیویٹ سکولز کا قیام، جنہیں چلانے والے بھی بڑے بڑے گھروں کے بڑے بڑے نام تھے ان کی سر پیڑ صرف اور صرف فیسوں، سیمینارز، فن فیرز، اور مختلف سرگرمیوں کے نام پہ بچوں کو الو بنا کر ان کے والدین کی جیبیں ڈھیلی کرنا تھا نہ کہ طلبا و طالبات کو علم و ہنر کے گوہر نایاب سے بہرہ ور کرنا. اور ہمارے احساس کمتری کے مارے ہوئے لوگ نہ ماں بولی بولنا چاہتے ہیں اور نہ ہی قومی زبان.
تقریباً اکیس برس پہلے مافیہ امجد پنجاب کے ایک چھوٹے سے پس ماندہ سے گاوں سے بیاہ کر آءیں تو ان کی جیٹھانی نے مارے خوشی کے ان سے پنجابی میں بات چیت شروع کر دی، نءی نویلی دولہن اپنی جیٹھانی جی کو ایسے انجان نگاہوں سے دیکھنے لگیں گویا انھیں جیٹھانی جی کے ایک بھی لفظ کی سمجھ نہ آئی ہو؟
جیٹھانی جی نے کھسیاہٹ سے دھیمی آواز میں پوچھا، دیورانی جی میری بولی کو سمجھ تورہی ہیں ناں. دیورانی جی جو کسی سستے بیوٹی پارلر سے تیار ہوی تھیں اور نخرہ ان کا ساتویں آسمان پہ تھا یوں گویا ہویں بھابھی ہمیں پنجابی آتی نہیں ہے کیونکہ ماما نے ہمیں پنجابی سکھای ہی نہیں. اب تو جیٹھانی جی کا من چاہا کہ اس نءی نویلی دولہن کو کھری کھری سنا دیں کہ ہاں ہاں تیرا دادا، تیری دادی، تیرے گاوں کے سارے ہی لوگ پنجابی نہیں بولتے ہوں گے، مگر چونکہ سمجھ دار تھیں لہٰذا صبر کے گھونٹ پی کر رہ گءیں.
ایک بیگم صاحبہ کو بھی پنجابی بولنے کا بڑا شوق تھا وہ اپنے ملازمین سے اکثر ہی پنجابی میں بات چیت کرتی تھیں ان کی برس ہا برس پرانی کام والی شہر چھوڑ کر چلی گءی تو نءی کام والی سے انھوں نے حسب عادت پنجابی میں بات چیت شروع کر دی، نءی کام والی نے باقاعدہ طور پر ہاتھ اٹھا کر بیگم صاحبہ کو روکا کہ بیگم صاحبہ اگر پنجابی میں بات چیت کرنی ہے تو اپنی کام والی کا بندوبست کر لیجیے ہم تو اردو بولنے والے ہیں یہ پنجابی اپنے وارے کا سودا نہیں، غور فرمائیے کہ کام والے بھی ماں بولی کو بولنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں.
ایزے برس ہا برس پہلے یوکے شفٹ ہو چکی تھی اس کی دو بیٹیاں تھیں جسے اس نے انگلش کے علاوہ باقی ہر زبان سے جدا کر دیا تھا. ایک دن ایزے کی ماں اور ساس ان سے ملنے یو کے پہنچ گئے اب نہ یہ بزرگ خواتین بچیوں کی انگریزی کو سمجھ سکتی تھیں اور نہ ہی وہ فر فر انگریزی بولتی بچیاں اپنی سراییکن دادی اور پنجابن نانی سے کوئی بات کر سکتی تھیں کر دیا ناں احساس کمتری میں مبتلا ایزے نے پہلی اور تیسری پیڑی کی اذیت کا سامان.
ہو سکتا ہے فر فر انگریزی بولتے ہوے بچے، لڑکے اور لڑکیاں بہت سوبر بہت پڑھے لکھے، بہت باشعور دکھیں مگر سو باتوں کی ایک ہی بات جس نے اپنی ماں بولی سے دوری اور اجنبیت برتی اس نے اپنے آپ سے، اپنی ثقافت سے، اپنے بودوباش سے، اپنے لوگوں سے اپنی ہواوں سے، اپنے وطن سے، اپنے وطن سے اور سب سے بڑھ کر اپنی ماں سے دوری اور اجنبیت اختیار کی. تمام دنیا کے ماں بولی پیاروں کو پیار
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gmail.com
Leave a Reply