Today ePaper
Rahbar e Kisan International

زندگی بار بار ملنی نہیں

Articles , Snippets , / Friday, January 31st, 2025

اکثر ہی سنا ہو گا کہ بہت سے لوگ جب اپنا رانجھا راضی کرتے ہوئے من مانیوں پہ من مانیاں کرتے ہی چلے جاتے ہیں اور انہیں کچھ سمجھ بھی نہیں آ رہی ہوتی کہ وہ بلا سوچے سمجھے کیا سے کیا کرتے جا رہے ہیں اور جب چھوٹے بڑے بھی انھیں حیرت سے تکتے اور سوچتے ہیں کہ یہ اچھے خاصے سمجھ دار لوگ کیوں الٹی سیدھی حرکتیں فرما رہے ہیں???
کل جب سطوت آرا ہفتے بھر کے کپڑے دھو کر سکھانے کے لیے چھت پہ ڈالنے گءی تو ہمسایوں کا سب سے عمر رسیدہ شخص زور سے سن اسی کی دھای کے ٹیپ ریکارڈر پہ میڈم نور جہان کا گانا بڑے ہی انہماک سے سن کے سر بھی دھن دھنا رہا تھا، گانے کے بول انتہائی بیہودہ تھے..
جے میں ہندی ڈھولنا او ڈھولنا
سونے دی تویتڑی
سطوت آرا ایک تو صبح سے کپڑے دھونے جیسی شدید مشقت کر کے ادھ موی سی ہو چکی تھی، دوسرے بھوک سے اس کی انتڑیوں نے بھی باقاعدہ قل ھواللہ کا ورد شروع کر رکھا تھا، تیسرے اسے ابھی بازار سے سبزی لا کے بچوں کی سکول واپسی سے پہلے کھانا بھی بنانا تھا، زندگی کو کتنے روگ تھے اور یہ قریب المرگ بابا جی غم دنیا سے پرے گانے سننے کی دل پشوری میں مصروف تھے. سطوت کا دل تو چاہا کہ بابا جی کو کھری کھری سنا کے دل کی بھڑاس نکال کے ہی نیچے جاے مگر پھر اس نے سوچا بابا جی یقیناً لوگوں کے اس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں جن کو مقصد حقوق العباد کو پس پشٹ ڈال کے صرف اور صرف اپنی دل پشوری کرنا، اپنا ہی رانجھا راضی رکھنا ہوتا ہے، ان کی بلا سے کوی مرے کوی جیے.
آپ تاریخ کے اوراق کو کھنگال کے دیکھ لیجیے بھلے بادشاہ ہوں یا عام انسان، تمام کے تمام ہی کسی نہ کسی کھوج میں دکھای دیں گے. انسانوں کو رب نے اس امتحان گاہ میں بھی کس الجھن میں ڈال رکھا ہے کہ ڈور کا سرا ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا. کسی کو فتوحات کا شوق چرایا تو دنیا کو فتح کرنے چل پڑا، کسی کا شادیاں کرنے کو دل چاہا تو اپنے حرم کو اپنی بیاہتا بیگمات سے بھر دیا. ہر کوئی اپنے اپنے شوق پورے کرنے میں برسر پیکار ہے یہاں تک کہ موت کے آہنی شکنجے سانسوں کی روانی کا خاتمہ کر دیں. کسی کو طرح طرح کے ملبوسات کا شوق ہے تو کسی کو انواع و اقسام کے موبائیل فونز کا، کوی مہنگی گھڑیوں کا رسیا ہے تو کوی اچھے اچھے بیگز کا، کسی کی سوی ہر نیے آنے والے جوتے پہ اٹکی رہتی ہے اور کسی کو رنگ برنگی، نیے ماڈل کی گاڑیاں خریدنے کا جنون کی حد تک شوق ہے، کوی اپنے من پسند کھاجوں کی تلاش میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں دھکے کھاتا پھر رہا ہے، کوی جھوٹی دنیا میں سچا پیار دھونڈنے کے لیے ہلکان ہوتا پھر ہے. حالانکہ سچ تو یہ ہی ہے کہ
جو نہیں ہے وہی محبت ہے
افراتفری کی اس کہانی میں
زندگانی کی آنی جانی میں
دل نے جانا تو بس
یہ جانا ہے
جو نہیں ہے
وہی محبت ہے
بچوں کے شوق کھلونوں سے چاکلیٹ اور کینڈیز تک ہی محدود ہوتے ہیں ارے نہ جی یہ تو ہمارے بچپن کے قصے ہیں، ماڈرن دور کے بچے تو کمپیوٹر پہ مختلف کھیل اور play stations سے نیچے کسی اور شے کے گاہک ہی نہیں بنتے اور پھر بات آ جاتی ہے سیر و سیاحت کے شوق کی، سیرسپاٹے کے شوقین اپنے پیر گھر میں لگاتے ہی نہیں وہ ہمیشہ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر ہونے کے لیے بیتاب رہتے ہیں، اور اب تو سیاحت بذات خود ایک بہت بڑا مضمون اور شعبہ ہے جس سے دنیا کے بہت سارے لوگوں کی روزی روٹی کے سلسلے جڑے ہوے ہیں. صفدر ایک جاٹ گھرانے میں پیدا ہونے والا سولہ سالہ لڑکا تھا جسے بچپن ہی سے پاگل پن کی حدوں تک ایکٹنگ کا شوق تھا. صفدر کے والدین اپنی سی کوششیں کر کے ہار چکے تھے کہ بیٹا کسی طرح، چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی پڑھای سے ناطہ نہ توڑے مگر آٹھویں جماعت میں پچھلے تین سالوں سے اٹکے ہوے صفدر نے والدین کی دوہای کو ایک کان سے سنا، دوسرے سے نکال دیا اور دو کپڑوں میں گھر کی چوکھٹ کو عبور کر گیا. ہاں جب وہ دس سال بعد فلم انڈسٹری میں ایک مشہور ہیرو کے طور پہ جانا جانے لگا تو ایک دن گھر لوٹ آیا.
شمیم آرا ذہین تھی ہر جماعت میں اس کے گریڈز اچھے آتے تھے لیکن بدقسمتی سے اس کا داخلہ سر توڑ کوششوں کے باوجود بھی میڈیکل میں نہ ہو سکا، سسرالی بھی تھوڑے سخت مزاج اور دوغلے تھے، بیٹیوں کو سفارش پہ بھی اچھی اچھی سرکاری نوکریاں دلوا دیں اور بہو کو میرٹ پہ ملنے والی نوکری بھی نہ کرنے دی.
شمیم آرا سمجھ دار تھی اس نے اپنی ایک بار ملنے والی زندگی کا مشن بنا لیا کہ اپنے چاروں ہی بچوں کو ڈاکٹر بنانا ہے اور وہ اتنی محنتی اور قسمت کی دھنی تھی کہ وہ واقعی میں اپنے چاروں بچوں کو ڈاکٹر بنا گءی.
کبھی آپ نے حالت امن و سکون میں کسی برگد کے درخت کی چھاوں میں بیٹھ کر غور کیا ہے کہ ہم سب اتنے ضدی، اتنے خود سر، اپنی من مانیاں کرنے اور اپنی منوانے کے لیے اپنی ساری توانائیاں کیوں صرف کر دیتے ہیں جی اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے کہ ہمارا بھلے جو بھی عقیدہ ہو، ہم جس مذہب کے بھی پیرو کار ہوں ہمارا یہ پکا عقیدہ ہے اور ہمیں اس بات کا سو فیصد یقین ہے کہ زندگی جیسی نعمت ہم سب کو ایک ہی دفعہ ملنی ہے، لہٰذا ہر کوی اپنی اپنی فطرت کے مطابق اپنی اپنی زندگی کو رنگین اور دلفریب بنانے میں لگا رہتا ہے کوی نیکی کی شمع جلاتا رہتا ہے اور کوی بدی کے قطب مینار بلند کرتا رہتا ہے. اور انسان کے ارادے کی بلندی ہمالے سے زیادہ بلند اور لوہے سے زیادہ مضبوط ہے. تو دنیا میں پھیلے ہوئے شعبدے اور معجزے بھی کسی جنت کے نظارے سے کم نہیں تو دنیاوی نعمتوں سے خوب لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے من کے رانجھے کو ضرور راضی رکھیے کہ زندگی وہ نعمت خداوندی ہے جو صرف ایک ہی بار ملنی ہے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International