تحریر:اشعر عالم عماد۔ کراچی پاکستان
پیارے عماد عالم جیتے رہو۔۔۔
سب سے پہلے تو تم 8 دسمبر کو ہماری سالگرہ پر کامیاب پروگرام پیش کرنے پر خصوصی مبارک باد قبول کرو۔ سنا ہے تمھیں ہمارا سارا کا سارا کلام ازبر ہے اور تم ہمیں اپنا روحانی مرشد بھی کہتے ہو ۔۔جیتے رہو ۔۔ اپنے اسلاف کو عزت دینا اعلیٰ ظرفی کی نشانی ہے یقین جانو مجھے اس بات کی بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے جب تم اس بے حسی کے دور میں بھی دورِ حاضر کے شعراء کے ساتھ ساتھ جہانِ فانی سے عالمِ برزخ پر پہنچے شعراء کا تعارف اور ان کلام اس ادا سے پیش کرتے ہو کہ لگتا ہے جیسے ہم تمھارے عہد میں پھر سے زندہ ہوگئے ہیں۔
اعلیٰ ظرفی سے یاد آیا کے تم نے پچھلے خط میں شکوہ کیا تھا کے تم دورِ حاضر کے زندہ شعراء کے کلام کی خوب تشہیر کرتے ہو مگر وہ تمھارا شکریہ تک ادا نہیں کرتے ۔۔۔ ارے میاں تم جس دور میں جی رہے ہو اُس دور سے تو اعلیٰ ظرفی اور وضع داری بالکل ہی غائب ہوچکی ہے ہم نے تو یہاں تک سنا کے بہت سے احباب تمھارے پروگرام میں مرزا غالب سے لیکر ہم تک کسی کے پروگرام کو نہیں سراہتے اور تو اور ہمارے لئے دو لفظ تک نہیں کہہ سکتے۔۔۔ اگر واقعی ایسا ہے تو تم اس پر حیرت نا کیا کرو۔۔۔۔
دیکھو میاں تمھارا دور کمرشل دور ہے یہاں اب سب کچھ پیسے سے چلتا ہے۔۔۔
اس لیئے مفت میں تو کوئی کسی کے لئے بولتا نہیں۔۔ ہاں اگر ہمارے نام سے ٹی وی چینل یا کوئی بڑی تنظیم یہی پروگرام ان کی صدارت میں منعقد کرائے تو دو بول ہمارے لئے بول دیتے ہیں۔۔یوں سمجھو میاں تمھارے یاں سب پیسے سے چل رہا ہے پہلے پیسہ دے کر خاموش کرایا جاتا تھا اب پیسہ دے کر تعریفیں کرانے کا رواج ہے ۔۔
کچھ دن قبل مرزا غالب ملے تھے کہہ رہے تھے اب کے عماد میاں کو خط بھیجو تو 27 دسمبر والے ہمارے پروگرام کا بھی شکریہ کہہ دینا۔۔۔ ہمیں یہاں کے مشاعروں سے فرصت ملی تو ایک مراسلہ ہم بھی لکھ بھیجیں گے۔۔۔
ہم نے لگے ہاتھوں تمھارے شکوہ کا ذکر مرزا صاحب سے بھی کردیا ۔۔۔
مرزا صاحب مسکرائے اور کہنے لگے کہ۔۔ اس سے کہنا۔۔ کہ ہم تو مر کے ابھی صرف عالمِ ارواح تک پہنچے ہیں مگر تمھارے کرہِ حیات پر موجود کچھ شعراء اپنے تئیں خود کو ایسا عظیم سمجھے ہوئے ہیں جیسے وہ وہیں بیٹھے بیٹھے مقامِ سدرة المنتہیٰ تک پہنچ گئے ہوں۔
خیر میاں چھوڑو اس سے کہو دل اپنا چھوٹا نہ کیا کرے جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہ خود ہی زمین میں دفن ہو کر وہیں کی مٹی میں فنا ہو جائیں گے اور دیکھنا وہ زندہ نا رہے تو ان کا کلام بھی زندہ نہ رہے گا اور صدارتیں علیحدہ ختم ہوجائیں گی یعنی۔۔۔
“خاک ہو جائیں گے وہ تم کو خبر ہونے تک”
اچھا میں چلتا ہوں مشاعرے کا وقت قریب ہوا چاہتا ہے وقت پر پہنچنا ضروری ہے ورنہ ذوق صاحب کو بادشاہ سلامت شہنشاہ بہادر شاہ ظفر سے شکوہ کرنے کا موقع مل جائے گا کہ غالب ابھی تک ان کی بات کو اہمیت نہیں دیتے۔۔۔ اہمیت سے یاد آیا کہ بہادر شاہ ظفر گو کہ اب وہ بادشاہ نہیں رہے ۔۔۔ مگر تہذیب، وضع داری، اخلاقیات بھی کوئی چیز ہوتی ہے ہم تو ان کا عرش پر بھی ویسے ہی احترام کیا کرتے ہیں جیسا فرش پر کیا کرتے تھے۔۔۔۔ اور اب عماد میاں کے دور میں ۔۔۔ خیر چھوڑو ۔۔۔ تمھارا ہی مصرعہ ہے نا۔۔۔ “منہ نا لگو تو بہتر ہے”۔ یہی لکھ بھیجو ۔۔غالب یوں لاٹھی پٹختے ہوئے تیز قدموں سے گئے کہ جیسے شدید غصہ میں ہوں۔۔۔
ابھی میں مزید لکھ ہی رہا تھا کے احمد فراز، فیض احمد فیض،حسرت جے پوری،مجروع، کیفی اعظمی،جانثار اختر، اور ساحر لدھیانوی بھی آگئے ہم نے خط لکھنا ترک کرنا چاہا تو ”کیفی” نے خط لکھنے کی بابت پوچھ لیا ۔۔
ہم نے جواباً تمھارا مختصر تعارف پیش کیا تو سب نے فرداً فرداً تمھیں شکریہ ادا کرنے کو کہا ۔۔ “ساحر تو 25 اکتوبر کے اپنے پروگرام پر بہت خوش تھے” ہم نے ان احباب سے بھی مختصر طور تمھاری شکایت کا ذکر کردیا۔۔
یہ سن کر فیض جی میرے قریب آئے اور ہاتھ سے خط لیکر سطور سطور زور سے پڑھنے لگے تاکہ سب سن لیں۔۔ انہوں نے مجھے خط واپس کیا اور سگار سلگا کر مسکراتے ہوئے احباب کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے کہنے لگے۔۔
میں سمجھ گیا وہ کن لوگوں کی شکایت کر رہا ہے۔۔یہ وہ شعراء ہیں جو اس وقت زمین پر ہمارے ناموں پر ہونے والے مشاعروں کی صدارت فرماتے ہیں ۔۔ناصر تم تو کم عمری میں ہی یہاں چلے آئے تھے مگر تمھارے بعد میں اور فراز جب تک دنیا میں رہے ہم نے ان کی دال نا گلنے دی۔۔ مگر آج یہی لوگ ہمارے نام کے مشاعروں کی صدارتیں کرتے ہیں اور شہرت کماتے ہیں۔۔ یہ لوگ نا پہلے وضع دار تھے نا اب ہوئے ہوں گے۔۔ وہ بھی اب تو میدان خالی ہے۔۔
فیض سگار کا ایش ٹپکاتے ہوئے خاموش ہوئے تو فراز بولے ۔۔ ناصر یار کاش تم آٹھ دس برس اور وہاں جی لئے ہوتے تو وہ یقیناً کوئی دوسرا کام ڈھونڈلیتے ۔۔ ارے ارے ناصر اُسے یہ سب مت لکھ بھیجنا۔۔۔ فیض۔۔۔۔۔ مسکراتے ہوئے بولے ۔۔۔
میں نے کہا۔۔ مگر میں نے تو املا کی طرح سب لکھ ڈالا۔۔۔
ساحر نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔۔ اب لکھ دیا ہے تو جانے دو۔۔ ان کم ظرفوں سے میں بھی ناراض ہوں دیکھو میرے پروگرام پر بھی کچھ نا بولے ۔۔
میں نے خط کو تہہ کیا اور مسکراتے ہوئے وہاں سے اٹھنے لگا ۔۔۔ کیونکہ عدم، شکیل بدایونی، اور اختر شیرانی کسی خاص اہتمام کے ساتھ وہاں تشریف لاچکے تھے۔۔ عدم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔۔ ٹھہرو ناصر ۔۔ جون ایلیا اور مطفیٰ زیدی بھی آرہے ہیں جم کے محفل لگنے والی ہے۔۔۔
تم تو جانتے ہو میں اس طرح کی محافل سے میں گریز ہی کیا کرتا ہوں۔۔۔ سو اٹھا اور چلا آیا۔
عماد میاں واضع داری تو ہمارے دور کی دیدنی تھی۔۔۔۔ یاد آیا تم نے تو اپنے پروگرام میں ہمارا وہ انٹرویو بھی چلایا تھا جس میں ہم نے ایک ٹانگے والے کا ذکر کیا تھا جس نے ہمارا صرف ایک شعر سن کر ساری زندگی مفت لے جانے کا کہدیا تھا ۔۔تمھارے دور کے لوگ وضع داری میں تو ہمارے دور کے ٹانگے والوں سے بھی بہتر نہیں ہیں* خیر۔۔۔
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نا کر زندگی پڑی ہے ابھی
خط طویل ہو رہا ہے ۔۔۔
عالمِ برخ کے تمام شاعر دوستوں کی طرف سے تمھیں سلام ۔۔۔
اور باقی دوستوں کو یہ پیغام پہنچا دو
خود نمائی سے بڑی کوئی خود فریبی نہیں
فی امان اللہ۔۔
تمھارا مرشد ناصر کاظمی
Leave a Reply