تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
افریقی ملک کانگو کی حالت زار
جن ممالک میں سیاسی استحکام ہےاور وہاں عدل و انصاف کے علاوہ میرٹ کا بول بالا ہے تووہ ریاستیں ترقی یافتہ کہلاتی ہیں۔جو ممالک عدم سیاسی استحکام کا شکار ہیں اور وہاں ناانصافی اور میرٹ کی پامالی ہوتی ہے تو وہ بدترین مسائل کا شکاررہتی ہیں۔دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک کی بھی فہرست بہت زیادہ ہے اور ترقی پذیر ممالک کی بھی،لیکن کئی ممالک شدید بے چینی کا شکار ہیں۔بعض اوقات کسی ملک کی قیمتی دولت اورخزانےبھی اس کے دشمن بن جاتے ہیں اور طاقتور ممالک اس دولت کو لوٹنے کے لیےاس ملک کے اندرونی حالات خراب کر دیتے ہیں۔اگر کسی ملک میں نفرت کا بازار گرم ہو جائےتو وہ تباہی کی طرف چل پڑتے ہیں۔براعظم افریقہ کاملک کانگو(ڈیموکریٹک ریپبلک اف کانگو) بھی شدید خانہ جنگی کا شکار ہے۔یہاں دولت کے بے شمار خزانے پائے جاتے ہیں،لیکن غربت اور بھوک نے یہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔یہاں اندرونی تنازعات،خانہ جنگی اور نسلی کشیدگی پوری قوت سےپھیلی ہوئی ہےاوران مسائل نےریاست کی رٹ کو کمزور کر دیا ہے۔جو کسر رہ گئی ہے وہ بیرونی مداخلت پوری کر رہی ہے۔کانگو میں کئی دہائیوں سےانتشار پھیلا ہوا ہےاور اس بات کا قوی امکان ہے کہ کئی دہائیوں تک جاری رہے۔فوج کے خلاف باغی گروپ بھی اٹھے ہوئےہیں۔فوج اور باغیوں کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔باغی اتحاد الائنس فلووکانگو(اے۔ایف۔سی)نے کچھ دن پہلے اعلان کیا کہ جنگ بندی کی جا رہی ہے لیکن جنگ بندی کا اعلان جھوٹا ثابت ہوا۔کانگو کےجنوبی کیوو صوبے میں شدید لڑائی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔اس بات کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ 3 ہزار افراد حالیہ دنوں میں ہلاک ہوئے ہیں۔چوراہوں اورسڑکوں پر لاشیں پڑی ہوئی ہیں اور اپنی بربادی کا نوحہ بیان کر رہی ہیں۔کانگو میں کچھ سال پہلے امن کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کے تحت فوجی دستے بھی بھیجے گئے،لیکن امن قائم نہ ہو سکا۔اس کی یہ بھی وجوہات ہو سکتی ہیں کہ عالمی طاقتیں بد امنی کی خواہش مند ہوں اور امن کی کوششوں کوناکام کر رہی ہوں۔کانگو کےحالات 2022 میں سب سے زیادہ خراب ہوئے،جب باغی گروپ ایم 23 نے کانگو حکومت کے خلاف بغاوت شروع کر دی۔اس باغی گروپ میں مزید افراد شامل ہوتے گئےاور باقاعدہ لڑائی شروع ہو گئی۔نسلی تعصب بھی پوری قوت سے ابھراہوا ہےاور اس عصبیت نے وسیع پیمانے پر انسانی بحران پیدا کر دیا ہے۔اقوام متحدہ،امریکہ اور کانگو کی حکومت اس بات کا الزام لگاتی ہے کہ پڑوسی ریاست روانڈا کانگو کے باغیوں کی حمایت کر رہی ہےاور انتشار پھیلا رہی ہےجبکہ روانڈا کی حکومت نےاس دعوے کی تردید کی ہے کہ وہ کانگو کے خلاف باغیوں کی حمایت کر رہی ہے۔روانڈا کی حکومت نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کو محفوظ کرنے کے لیےمختلف اقدامات کرتی رہتی ہے،جس سے یہ تاثر پایاجاتا ہے کہ روانڈا کانگو کے حالات خراب کر رہی ہے۔اس بات کی بھی اطلاعات پھیلی ہوئی ہیں کہ روانڈا نے چار ہزار فوجی بھیجے ہیں اور بھاری ہتھیاروں کے علاوہ فوجی تربیت بھی فراہم کی ہے۔جمہوریہ کانگو کے خلاف روانڈا کی حکومت کسی بھی سرگرمی سے انکار کر رہی ہے،لیکن شواہد کے مطابق روانڈا ان حرکات میں ملوث ہے۔
کانگو میں بے شمار دولت کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ہیرے، جوہرات،سلیکان،کوبالٹ،کوپر کے ذخائر اور سونے کی کانیں موجود ہیں،لیکن غربت بھی اپنی پوری قوت سے موجود ہے۔خوراک کی قلت بھی پائی جاتی ہےاور دیگر ضروریات زندگی بھی ناپید ہوچکی ہیں۔ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو(ڈی۔آر۔کانگو)سرسبزو شاداب علاقہ ہےاور بارشیں بھی ہوتی ہیں،لیکن بجلی اور پانی کا بھی بحران بہت ہی بڑھا ہوا ہے۔انٹرنیٹ اور فون کی سروس بھی اکثر اوقات معطل رہتی ہے۔قیمتی معدنیات کے علاوہ کولٹن کے وسیع ذخائر بھی پائے جاتے ہیں اورکولٹن فون اور کمپیوٹرکی پیداوار کے لیے اہم ہے۔اتنی وسیع دولت ہونے کے باوجود بھی عوامی سطح پرغربت پائی جاتی ہے۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہاں تنازعات بڑھے ہوئے ہیں اور نااتفاقی گھمبیر قسم کے مسائل پیدا کر رہی ہے۔باغی یوگنڈا کی سرحدوں سےمتصل شمالی کیووکے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر چکے ہیں اور مشرقی کانگو میں بھی جنگ جاری ہے۔کانگو کی آبادی 10 کروڑ سے زائد ہے۔نسلی تعصب کے علاوہ زمینوں پر قبضے اور معدنی وسائل پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیےجاری لڑائی کو کئی دہائیاں ہو چکی ہیں،لیکن کانگو کی عوام کوئی سبق سیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں۔کانگو میں لوٹ مار، تشددعام اورجنسی تشدد جیسے جرائم بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔51 لاکھ کے قریب لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں۔بعض اوقات وبائیں بھی پھیل جاتی ہیں اور ان سےبے شمار اموات ہو جاتی ہیں۔ادویات کی قلت اور مناسب خوراک کی عدم دستیابی سے بھی اموات ہوتی ہیں۔گولیوں سے زخمی افراد بھی ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں لیکن مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سےوہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او)کی طرف سے بھی خبردار کیا گیا ہے کہ علاقے میں پہلے سے موجود بیماریاں تیزی سے بڑے پیمانے پر پھیل سکتی ہیں۔گزشتہ سال بھی ہیضہ،خسرہ اور ملیریا کےپھیلاؤ میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔کانگو میں موت کا خوف پھیلا ہوا ہےاور لوگ کمزور کشتیوں میں پناہ کی تلاش میں جھیل کو عبور کر رہے ہوتے ہیں اور کئی ڈوب کر ہلاک بھی ہو جاتے ہیں۔کانگوجنگ،بیماریاں،بھوک اور موت کا خوف پھیلا ہوا ہے۔
کانگو میں دولت کے وسیع خزانے موجود ہونے کے باوجود بھی غربت اور بےچارگی پائی جا رہی ہے۔خوراک اور ادویات کی قلت سے انسان ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں۔کون سی وجوہات ہیں جن کی بناءپر کانگو کی عوام بے بسی کا شکار ہو چکے ہیں؟یہ دوسروں کے لیے بھی ایک درس ہے کہ اگر کسی قوم میں نسلی انتشار پھیل جائے،نااتفاقی اپنے پنجے گاڑھ لے،دوسروں کے حق کوچھین لیا جائےاور نفرت کے بیج تناور درخت بن جائیں تو وہاں ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔وہاں کئی دفعہ سونے اور دوسری دھاتوں کی کانوں میں حادثے ہو جاتے ہیں،کیونکہ سونا اور دوسری دھاتوں کو نکالنے کے لیے جدید ذرائع موجود نہیں ہیں اور کان کن(مزدور)پرانے طریقے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔کتنی بے بسی کی بات ہےکہ لاشیں سڑکوں پر پڑی ہیں،ہسپتالوں میں دوائی موجود نہیں،پینے کے لیے پانی اور کھانے کے لیےخوراک موجود نہیں،لیکن دولت کے ذخائر موجود ہیں مگر ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔اس وقت تک کانگو کی عوام کے حالات خراب رہیں گے جب تک ان کو یہ عقل نہیں آجاتی کہ اتفاق میں برکت ہےاور اپنا حق کو لیا جائے اور دوسرے کے حق کودوسرے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔خزانوں کابہتر استعمال کر کےکانگوکی حالت بدل سکتی ہے،لیکن اس کے لیےنفرت،نسلی تعصب اورزیادتی سےروگردانی کرنی ہوگی۔کوئی بھی ملک یا قوم اس وقت تک ترقی حاصل نہیں کر سکتی جب تک عدل و انصاف اور میرٹ کے نظام کو اپنانہ لیا جائے۔
Leave a Reply